سیاسی مذاکرات کاگول چکر

پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے عندیہ دیاگیا ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ مذاکرات جاری رکھے گی وہاں دوسری جانب احتجاج کی بھی ساتھ ساتھ تیاریاں جاری ہیں جس سے خدشات بے وجہ نہیں اس ماحول میں مذاکرات کی کامیابی اور انتخابات کے انعقاد کی ماہ و تاریخ پر اتفاق رائے مشکل نظر آتا ہے تحریک انصاف کے مطالبے پر ایک ساتھ الیکشن کیلئے 14 مئی تک اسمبلیاں توڑ دینے کے مطالبے کی پذیرائی کا امکان بھی نہ ہونے کے برابر ہے ملک میں جاری سیاسی بحران سے جس طرح کاروبار مملکت اور کاروبار حیات متاثرہ ہے اس کے اعادے کی ضرورت نہیں سیاستدانوں کے معاملات میں عدالت کا آنابھی کوئی احسن امر نہیں لیکن بامر مجبوری عدالت کی جانب سے حکومت اور حزب اختلاف کو چاروں صوبوں اور مرکز میں عام انتخابات کیلئے ایک ہی تاریخ پر اتفاق کی خاطر مذاکرات کا مشورہ بہرحال احسن تدبیر ہے اور اب یہ ملک کی سیاسی قیادت پر منحصر ہے کہ وہ اس امتحان میں کس طرح سرخرو ہوتی ہے یا پھر ناکامی کی صورت میں ایک نیا اور زیادہ سنگین بحران سامنے آتا ہے اس موقع کا درست استعمال لچک کا متقاضی ہے غیر لچکدار رویہ اسے ضائع کرنے کے مترادف ہوگا۔ سابق حکمران جماعت کے فیصلوں کا اس بحران میں بڑا عمل دخل ہے جس کا اب انہیں ادراک ہونا چاہئے۔اس ادراک کا تقاضا یہ ہوگا کہ سابق حکمران جماعت ایسی شرائط پیش کرنے سے گریز کرے جو غیر حقیقی ہوں نیز ایک جانب مذاکرات دوسری جانب عدالت کی طرف دیکھنے اور عدالت ہی کو نجات دہندہ قرار دے کر ان سے ہی حل کی امید کا بیان مذاکرات کے عمل پر اظہار عدم اطمینان اور خود اپنی مذکراتی ٹیم کی وقعت ہی کم کرنے کا باعث امر ہے سابق حکمران جماعت ایک سال قبل قطعی آئینی طریقہ کار کے مطابق حکومتی تبدیلی کو جمہوری اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے قبول کرکے اگر پالیمان میں اپنا کردار ادا کرتی تو ان کو آج یوں دردر کی ٹھوکریں کھانے کی ضرورت نہ تھی غلطی پہ غلطی یہ کہ دو صوبائی اسمبلیوں کی بلا سوچے سمجھے تحلیل کے بعد اب قسم قسم کے بیانات مضحکہ خیزی کی زمرے میں آتے ہیں جس سے ان کی سیاسی سوچ کی ناپختگی اور سیاسی حقائق سے ناآشنا ہونے کا تاثر ملتا ہے۔ تحریک انصاف اگر یہ غلطیاں نہ کرتی تو آج ایک بہتر پوزیشن میں ہوتی اور حکومتی اتحاد کو بھی کھل کھیلنے کا موقع نہ ملتا۔بہرحال اب جبکہ عدالت کی تجویز پر عام انتخابات کیلئے ایک تاریخ پر اتفاق رائے کا موقع مل گیا ہے تو ماس موقع کو ضائع کرنا تحریک انصاف کی ایک اور سیاسی غلطی ہوگی بظاہر ایک جانب تحریک انصاف کے نمائندے حکومت سے مذاکرات میں مصروف ہیں مذاکراتی عمل میں پیشرفت کا اندازہ نہیں لیکن عمران خان چودہ مئی تک اسمبلیوں کی تحلیل پر زور دے رہے ہیں اگر ان کا یہی مطالبہ ہی تسلیم کرنا تھا تو پھر حکومتی اتحاد کو اتنے عرصے تک پاپڑ بیلنے کی کیا ضرورت تھی۔ اگرچہ معاملات عدالت کے مشورے پر طے ہوتے دکھائی تو دیتے ہیں لیکن بالاخر عدالت سیاستدانوں کو اس امر پر ہرگز مجبور نہیں کرسکتی کہ وہ بہرصورت معاملات طے کریں کسی بھی فریق کی جانب سے عدم اتفاق سے سارا عمل متاثر ہوسکتا ہے جبکہ عدالت مئی میں انتخابات کی جو تاریخ دینے کے بعد بال ایک مرتبہ پھر سیاستدانوں کے کورٹ میں پھینکی ہے اب اس بال پر گول سیاستدانوں ہی نے کرنا ہے عدالت جس قدر کردا ر ادا کرسکتی تھی وہ شدید تنقید کے باوجود کی اورایسا لگتا ہے کہ اس سے آگے مزید کوئی بھی ہدایت یہاں تک کہ حکم جاری کرنے پر بھی اب مئی میں مقررہ تاریخ پر انتخابات کے انعقاد کا امکان نظر نہیں آتا۔ انتخابات کرانے کا عمل ایک طویل اور صبر آزما ہوتا ہے اور اس کے کئی ایک مراحل ہوتے ہیں تیاریاں اور انتظامات ہوتے ہیں فی الوقت اس حوالے سے جب کوئی پیشرفت ہی نہیں تو پھر یہ کیسے فرض کیا جائے کہ مئی میں انتخابات کا انعقاد ہوگا یہ تاریخ گزر جائے اور تحریک انصاف اور حکومتی اتحاد میں کوئی سمجھوتہ نہ ہو پایا تو اس کے بعد کی صورتحال سیاسی بحران اور مشکلات میں مزید اضافہ کرے گی جس سے بچنے کا بہترطریقہ کچھ لو کچھ دو کے اصول کے تحت کسی نتیجے پر پہنچنا ہی نظر آتا ہے سیاستدانوں کو لچک اور صبر و برداشت اور ایک دوسرے کو جگہ دینے کا جمہوری درس فراموش نہیں کرنا چاہئے اور ملک کو بحران سے نکالنے میں ذمہ دارانہ کردار کا مظاہرہ کرنا چاہئے کوشش کی جائے کہ مذاکرات سبوتاژ نہ ہوں ایسا اسی وقت ہی ممکن ہوسکے گا جب فریقین ذمہ دارانہ کردار کا مظاہرہ کریں۔توقع کی جانی چاہئے کہ پاکستان تحریک انصاف نے جس احتجاج کا عندیہ دیا ہے اس کی ضرورت پیش نہیں آئے گی اور سیاستدانوں کے درمیان اختلافات مذکراتی کمیٹی میں طے ہوں گے۔ تحریک انصاف احتجاج اور سڑکوں پر نکل کر نتائج کے حصول کا بار بار ناکام تجربہ کرچکی ہے بہتر ہوگا کہ مذاکراتی عمل کو دبائو کا شکار بنا کر سبوتاژ کرنے سے گریز کیا جائے اور ایسے اقدامات سے پرہیز کیا جائے جس کے نتیجے میں مذاکراتی عمل متاثر ہو۔

مزید پڑھیں:  ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی حکمرانی