ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات!

ہر ایک دن کے ساتھ ایک ظلم اور جبر سے آزادی حاصل کرلینے کی کہانی منسلک ہوتی ہے۔ ایسے ہی ایک دردبھرد استان” مزدور وں کے عالمی دن”سے بھی جوڑی ہے ۔ہر سال یکم مئی کو عالمی طور پر یومِ مزدور، مزدوروں کے حقوق کی حفاظت اور ان کی خوشحالی کے لئے منایا جاتا ہے۔ اس کی ابتدا 1886 میں اس وقت ہوتی ہے ،جب مزدوروں کو غیر انسانی رویے کے ساتھ ہفتے کے سارے دن اور 12 گھنٹے کام کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا اور اس کے عوض دی جانے والی اجرت اتنی معمولی ہوتی تھی کہ ان کا گزر اوقات اور دو وقت کے کھانے کا انتظام بھی، تقریبا ناممکن ہوتا تھا ۔ مزدوروں کی یہ حالت بالخصوص امریکہ میں تشویش ناک حد تک خراب تھی۔ چونکہ امریکہ میں سرمایہ دارانہ نظام رائج تھا ۔جس میں اقتصادی تقسیم کا فرق بہت بڑھ جاتا ہے۔اس نظام کے ذریعہ، سرمایہ داروں کو زیادہ منافع ملتا ہے جو کہ امیر سے امیر ترہوتے جاتے ہیں۔ جبکہ ، محنت کرنے والے غریبوں کو اس منافع کا بہت ہی کم حصہ دیا جاتا ہے ۔ اس طرح، اقتصادی تقسیم میں فرق کابڑھنا، نقصانات کی وجہ بنتا ہے۔ قدرت اور حاکمیت کے تناسب کی بحالی کا خاتمہ بھی اس کی ایک بڑی خرابی ہے۔ بہرحال ، اس سسٹم کے بڑھتے ہوئے ظلم و جبر کے خلاف ، امریکی مزدو راٹھ کھڑے ہوئے جس میں انہوں نے، ہفتے کے 6 دن اور 8 گھنٹے کام کرنے کی مانگ کی ۔ اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے ان مزدوروں نے بہت سی قربانیاں دیں جس میں دوران احتجاج بہت سے مزدور اپنی جان سے گئے اور بالاخریکم مئی کوان کے حقوق کے تحفظ کے طور پر اس دن کو تسلیم کر لیا گیا۔ یہاں سے پوری دنیا میں ان کے حقوق کے اعتراف میں یہ دن منایا جانے لگا ۔
دراصل، اس دن سے جڑے عزم کے اعادے کی آج ایک بار پھر اتنی ہی ضرورت ہے، جتنی صدیوں پہلے تھی ۔آج کے ماڈرن زمانے میں بھی جس طرح مزدوروں کا استحصال کیا جارہا ہے ، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ ایسے میں اگر ریاست معاشی طور پر کمزور ہو تو ، روٹی کو روح رواں گردانتے ہوئے یہ سرمایہ دار، ان مظلوم مزدوروں کی رگوں سے خون بھی نچوڑ لیتے ہیں ۔پاکستان جیسی ریاست جہاں معاشی مسائل ، تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی ، پر پھیلائے ہوئے بیٹھی بے روزگاری، غیر تعلیم اور غیر تربیت یافتہ نوجوانوں کی کثیر تعداد پائی جاتی ہو ،وہاں تو ان سرمایہ داروں کی چاندنی ہوجاتی ہے ۔ پھر چاہے وہ اندورن ملک ہو یا بیرون ملک ، چھوٹے سرمایہ دار ہوں یا بڑی بڑی کمپنیز کے مالکان ، بہتی گنگا میں کوئی بھی ہاتھ دھونے سے پیچھے نہیں ہٹتا۔ غربت اور افلاس سے تنگ آئے ان افراد کے ساتھ انسانیت سوز سلوک روا رکھا جاتا ہے،جس میں 18 گھنٹوں کی ڈیوٹی دینے، جانوروں کی طرز کی رہائش میں گزارا کرنے کے بعد انہیں جو ادائیگی کی جاتی ہے، وہ کسی بھی صورت منصفانہ تقسیم نہیں ہوتی جیسے کہ اس کی عام مثال سعودیہ اور دوبئی میں کام کرنے والے افراد ہیں۔ مزید برآں اس معمولی اجرت سے یہ بیچارے اپنوں سے دور پردیس میں روپیہ روپیہ بچاتے ہوئے اپنے خاندان کے اخراجات پورے کرنے کی چاہ میں ہوتے ہیں اور اس دوران آجر کی جانب سے مسلسل دبائو ، جسمانی بے انتہا مشقت ، ذہنی بے سکونی مل کر ان کی زندگی کو تاریک گلی میں لا کھڑا کرتی ہے ۔کہ بقول اقبال:
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بند مزدور کے اوقات
ستم ظریفی ، یہاں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ، اس بے رنگ اور مشقت بھری زندگی کے لئے بھی بے شمار افراد سرگرداں ہیں کہ کسی طرح انہیں موقعہ مل جائے اور وہ ان ممالک میں جا کے دن رات ایک کر کے کم از کم اپنے دسترخوان کی رونق بحال کر سکیں ۔عرب ممالک میں جانے والے ان مزدور افراد کی اکثریت پاکستان ، بھارت اور بنگلہ دیش کے شہریوں کی ہوتی ہے۔ لیکن پاکستان میں بڑھتی مایوسی کی وجہ سے یہاں کے باسی ہر انسانیت سوز رویہ سہنے کے لئے تیار ہیں۔ پاکستان میں ابترمعاشی حالات میں جہاں مہنگائی حدوں کو چھو چکی ہو ، وہاں افراتفری کا حال یہ ہے کہ ایک روزگار کے موقعے کی فراہمی کی صورت میں ہزاروں لوگ قطار میں لگ جاتے ہیں ۔ روزی وروٹی اور کسب حلال کا حصول اس حد تک دشوار ہوچکا ہے کہ اب لوگوں کو اس کی پرواہ نہیں ہے کہ ان سے کیا اور کتنا کام لیا جارہا ہے، بس انہیں کوئی مزدوری اور کام مل جائے ،یہ تمنا رہ گئی ہے ۔
پاکستان کے آئین کی شق نمبر 11، 17،18 37،25-ای میں واضح طور پر مزدروں کے حقوق کی وضاحت کی گئی ہے۔ ان حقوق کا تحفظ تو کجا ، ؛ بلکہ ان کو بقادینے کے مقابلے میں تیزی سے سلب کیا جارہا ہے ۔ پاکستان میں ان اسکلڈ مزدور کی تنخواہ ماہانہ25 ہزار روپے ہے ۔ جو کہ پچاس سالہ مہنگائی کے ریکارڈز ٹوٹنے کے زمانے میں خوراک کے بندوبست کے لئے بھی کافی نہیں ہے۔ جبکہ پڑوسی ممالک میں جن کی کرنسی کی قدر اور قوت خرید۔انڈین روپیہ اور ٹکہ بمقابل پاکستانی کرنسی 3.47 اور2.67 ترتیب وار حیثیت رکھتے ہیں پاکستانی روپے سے زیادہ ہے ، پھر بھی ان کے مزدور کی ماہانہ آمدن پاکستانی مزدور سے زیادہ اور گزارے لائق ہوتی ہے۔ پاکستان میں مزدوروں کے ساتھ اس درجہ حق تلفی کی ایک بڑی وجہ بڑھتی ہوئی آبادی اور تعلیم و تربیت کا نہ ہونا ہے ۔ چونکہ، پروفیشنل ازم ، ہنر ، تعلیم اور تربیت کی کمی وہ عوامل ہیں جو ہمارے لوگوں کے لئے ترقی اور اپنے حقوق کے لئے بے خطر آواز اٹھانے کی جرات کو روٹی بھی چھن جانے کے خوف کے سائے تلے دفن کر دیتے ہیں۔ اس کے تدراک کے لئے جتنی اہمیت طویل مدتی پلانز رکھتے ہیں ، اتنی ہی حیثیت قلیل مدتی پلانز بھی رکھتے ہیں۔ جس میں آبادی کے ہر طبقے اور جنس کو مخصوص شعبوں میں عملی تربیت دی جاسکے تاکہ فوری طوری پروفیشنل نہیں لیکن ماہرانہ صلاحیتیں تو حاصل کر سکیں ۔ یہ ہی کاوشیں ہوتی ہیں جن سے ریاستیں اپنے شہریوں کو ایسا با مقصد اور باصلاحیت اور پروڈیکٹو بنا دیتی ہیں کہ وہ اپنی ذاتی زندگی کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت کے لئے بھی مددگار ثابت ہوتے ہیں۔جیسے کہ آسٹریلیا ، جہاں دنیا بھر میں مزدروں کو سب سے زیادہ اجرت دی جاتی ہے اور ان کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانا بھی اولین ترجیح ہوتا ہے۔بدقسمتی سے کبھی بھی مزدوروں کو ان کی محنت، لگن اور خدمات کا پورا کریڈٹ نہیں دیا گیا۔وہ ہماری مالی امداد اور مہربانی کے مستحق ہیں، لیکن پھر بھی ان کی خدمات کی پوری ادائیگی کے بغیر مسلسل ان کا استحصال جا ری ہے ۔ مزدوروں کے حقوق کو نظر انداز یا چھیننے کا رجحان بہت ہی عام سی بات ہوتی جارہی ہے۔ کیونکہ انکے سالب کو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں نظام عدل اتنا کمزور ہے کہ وہ کمزور مزدوروں کو اکثر قانونی تحفظ فراہم نہیں کر پاتایا پھر عمومامزدوروں خود بھی اپنے قانونی تحفظات سے مکمل طور پر نابلد ہوتے ہیں۔ لہذا ، وطن عزیز کے اس پستے ہوئے طبقے کی بحالی کے لئے حکومت اور معاشرتی سطح پر اقدامات ناگزیر ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم ان کے بارے میں اپنا رویہ بدلیں اور ان کی اہمیت کو سمجھیں۔ یہ وقت ہے کہ ہم انہیں ان کی محنت اور کسب حلال کی جستجو پرالفاظ تحسین پیش کریں۔ یہ وقت ہے کہ ہم ان کااحترام کریں اور ان کی مدد کریں!

مزید پڑھیں:  ''ظلم دیکھ کر چپ رہنا بھی ظلم ہے''