ہمت مرداں مدد خدا

حال ہی میں میڈیکل اور انجینئرنگ کی جامعات میں داخلے کے خواہشمندوں کی ایک کھیپ میرٹ پر نہ آنے کے بعد جامعات میں داخلہ حاصل کر چکی اور مختلف شعبوںمیں بی ایس کی کلاسیں جاری ہیں اب میٹرک کے امتحانات شروع ہیں اس کے بعد پھر انٹری ٹیسٹ کی تیاری ہو گی غرض آج کل کے بچے کو لہو کے بیل کی طرح مصروف ہوتے ہیں لیکن افسوس کہ ہمارا تعلیمی نظام اور طریقہ تدریس کچھ ایسا ہے کہ بچوں کی اتنی محنت اور والدین کا بہت سارا روپیہ پیسہ خرچ ہونے کے باوجود ہر طالب علم اور ان کے والدین وہ کچھ حاصل نہیں کر پاتے جو ان کی شدید خواہش ہوتی ہے ۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے عالمی سطح پر ترجیحات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں لیکن ہمارے ہاں کے طالب علموں اور ان کے والدین کی ترجیح میڈیکل اور انجینئرنگ ہی کے شعبے ہیں اس کے علاوہ کسی شعبے میں جانے کے لئے وہ مشکل ہی سے یا پھر بامر مجبوری تیار ہوتے ہیں اس کا الزام میں بچوں کو اس لئے نہیں دوں گی کہ بچوں کو بہرحال رہنمائی اور مشورے کی ضرورت ہوتی ہے میٹرک اور انٹر کی سطح پر ان سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ اپنے کیریئر کا فیصلہ کرکے اس کے مطابق شعبے میں چلے جائیں ان کو والدین اور اساتذہ کی رہنمائی اور کیریئر کونسلنگ کی ضرورت پڑتی ہے جس کا ہمارے ہاں کم ہی تصور ہے ستم بالا ستم یہ کہ بدقسمتی سے ہمارے تعلیمی اداروں میں ایسا کوئی انتظام نہیں کہ بچوں کی کیریئر کے حوالے سے کونسلنگ کی جائے تعلیمی اداروں میں روایتی کورس برسوں سے پڑھانے کا سلسلہ جاری ہے اور جس راہ سے اساتذہ گزرکے آئے ہوتے ہیں طالب علموں کو بھی اسی راہ پر لگا دیا جاتا ہے مزید بدقسمتی یہ کہ ہمارے سکولوں ‘ کالجوں یہاں تک کہ جامعات میں ایسے اساتذہ آتے ہیں جن کی قابلیت و استعداد اور رجحان کو جدیدیت کی ہوا بھی نہیں لگی ہوتی لکیر کے فقیروں سے توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ مستقبل کی ضروریات اور رجحانات کا ادراک کرکے طالب علموں کی اس حوالے سے رہنمائی کریں اور ان کو اس بارے میں مشورے اور ہدایات دیں آفریں ہے ا ن ممالک پر جہاں طالب علموں کے شعبوں کا فیصلہ ان کا رجحان استعداد اور قابلیت کا صحیح صحیح تعین کرکے کیا جاتا ہے ایسا ان کے والدین اور یہاں تک کہ وہ خود نہیں بلکہ ان کے سکولوں کے اساتذہ کرام کرتے ہیں انہی سکولوں میں ہر طالب علم کو کوئی نہ کوئی ہنر سکھا کر معاشرے کو ایک ہنر مند فرد دیا جاتا ہے جو اپنے ہنر سے معاشرے اور اپنے خاندان کی کوئی نہ کوئی کسی نہ کسی قسم کی خدمت بہتر انداز میں کرسکے ہمارے ہاں تو اس کا تصور بھی نہیں یہی وجہ ہے کہ بجلی کا بٹن خراب ہواور نل ٹپکنے لگے تو ہاتھ باندھ کر کاریگر کی منت کرنی پڑتی ہے بہرحال یہ ایک الگ موضوع ہے پھر کبھی سہی اس وقت میٹرک کے امتحان میں شریک طالب علموں اور ان کے والدین کی توجہ اس جانب مبذول کرانا ہے کہ اگربچے کے میٹرک میں نمبر کم آئیں اور میرٹ پر کسی اچھی جگہ داخلہ نہ مل سکے تو یہ مت سمجھیں کہ زندگی بس یہیں ختم ہو گئی ہر طالب علم ڈاکٹر اور انجینئر نہیں بن سکتا اور نہ ہی معاشرے کو صرف ان دو قسم کے لوگوں ہی کی ضرورت ہوتی ہے ڈاکٹر کہلوانا اور میڈیکل کالج جانا کسی کا خواب ہو تو اس میں برائی نہیںاپنے شوق کو پالینے کی جدوجہد ضرور کی جائے لیکن اگر ایسا نہ ہو سکے تو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں میڈیکل ہی کے دیگر شعبے بھی یکساں اہمیت کے حامل ہیں اسی شعبے میں مختلف پیشہ ورانہ تعلیم کو رس اور ڈپلومہ حاصل کیجئے میں بار بار یہ بتاتی رہتی ہوں کہ دنیا کے بیس پرکشش ملازمتوں اور شعبوں میں اب میڈیکل کا شمار نہیں ہوتا۔اب انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے دنیا بھر میں اس کا چرچا ہے او اچھی بات یہ کہ اس میں داخلے کے لئے میرٹ بھی کوئی خاص نہیں کسی نہ کسی کالج اور یونیورسٹی میں داخلہ مل سکتا ہے یہ ایک پریکٹیکل فیلڈ ہے جس کی وسعت اتنی ہے کہ کوئی بھی پوری مہارت حاصل نہیں کر سکتا اور نہ ہی ایسا ممکن ہے ہر طالبعلم اپنی استعداد کے مطابق یہ سیکھ لے تو اس کے مطابق روزگار کمانے کے مواقع کافی ہیں میں خود اعلیٰ سرکاری ملازمت پر ہونے کے باوجود فری لانسنگ کو ترجیح دیتی ہوں آج میں سوچتی ہوں کہ اگرمجھے اگر فری لانسنگ میں موقع ملتا اور میرے دور طالب علمی میں یہ شعبہ متعارف ہوا ہوتا تو آج میں بھی کسی بڑی کمپنی کی مالکن ہوتی اور لاکھوں میں کما رہی ہوتی ۔ اس تذکرے کا مقصود فقط اتنا ہے کہ میں نوجوان طالب علموں کو سمجھا سکوں کہ اس وقت کس شعبے کی اہمیت ہے اور کیا سوچ ہونی چاہئے فری لانسنگ کوئی زیادہ مشکل کام نہیں بس پتہ پانی کرنا ضروری ہوتا ہے محنت سے ایک مرتبہ کام سیکھیں اور کام حاصل کرنے میں تجربہ حاصل ہو تو وارے نیارے ۔ گھربیٹھے خود اپنا باس اور خود ہی کارکن بس کام کرتے جائو اور صرف اپنے لئے ہی نہیں اپنے وطن کے لئے بھی زرمبادلہ کماتے جائو۔ بھارت اس وقت اس شعبے میں بہت آگے ہے ہمارے نوجوانوں کو بھی کوشش کرنی چاہئے کہ وہ اس شعبے میں نام کمائیں نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ اس شعبے کے حوالے سے معلومات حاصل کریں اور پھر ایسے شعبے کا انتخاب کریں جو ان کے رجحان کے مطابق ہو کمپیوٹر سے متعلقہ ہر شعبے کی ڈیمانڈ ہے اور باآسانی کام مل جاتا ہے ساتھ ہی ساتھ اکیڈیمک رائٹنگ اور مارکیٹنگ کے شعبے بھی اچھے اور پرکشش ہیں والدین کوچاہئے کہ وہ اپنے بچوں کو زبردستی انجینئر اور ڈاکٹر بنانے کی تگ ودو کی بجائے شروع ہی سے ان کو انگریزی او ریاضی میں خاص طور پر محنت سے مہارت حاصل کرنے کی طرف متوجہ کریں اچھی انگریزی اور ریاضی میں مہارت ہو تو آئی ٹی کے شعبے ہی میں نہیں انگریزی لسان و ا دب سے لے کر ملازمتوں کے امتحانات اور ٹیسٹ و انٹرویو میں ہر جگہ بڑی مدد ملتی ہے نوجوانوں کو جس بھی مضمون میں داخلہ ملے اس سے دل چھوٹا نہیں کرنا چاہئے جو طالب علم اردو ادب ہو یا ماحولیات یا سماجی سائنسز کامرس کی تعلیم ہو یاکوئی اور شعبہ اور ٹیکنالوجی و بنیادی سائنسز کوئی بھی شعبہ برا نہیں البتہ محنت و مہارت اور اعلیٰ استعداد کا حصول شرط ہے جن جن ترجیحات کا میں نے ذکر کیا اس کے تذکرے کا مقصد بہتر ترجیحات کی طرف توجہ مقصود تھا ہر طالب علم کو اپنی قابلیت و استعداد کے مطابق کوشش کاپھل ضرور ملتا ہے جس کا رجحان جس جانب ہواس رجحان کے مطابق شعبے کا چنائو کامیابی دلاسکتی ہے ۔ ضروری نہیں کہ سبھی طالب علم درسی کتابیں ہی پڑھیں ٹیکنالوجی اور ہنر سیکھنے کی طرف کسی کارجحان ہوکاروبار شروع کرنے کی ہمت کی جائے تو دیر نہیں کرنی چاہئے ۔ دنیا بہت وسیع ہے اور مواقع کی بھی کمی نہیں ہمت مرداں مدد خدا اور بس۔

مزید پڑھیں:  موت کا کنواں