اس خانہ خرابی کے ہیں ا سباب بہت سے

مسئلہ غور طلب بھی ہے اور قابل توجہ بھی ‘ اس جانب ہمارے ایک کرم فرما نے ٹویٹر پر ایک پوسٹ ٹویٹ کرتے ہوئے توجہ دلائی ہے اور اس ضمن میں جائز طور پر رونا رویا ہے۔ موصوف سینئرصحافی شمس مومند نے گزشتہ روز جس مسئلے کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے اس حوالے سے خود ہمیں بھی لوگوں کے عمومی رویئے سے اتفاق نہیں ہے گویاانہوں نے جس موضوع کو چھیڑا ہے اس حوالے سے ہم بقول غالب ان کے ہمنوا ہیں کہ
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کیا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
ایک زمانہ تھا جب دیہات میں بالخصوص اور شہروں میں(اکثر) بالعموم شادی بیاہ ‘ خوشی کی کسی اور تقریب میں جو دعوتیں کی جاتی تھیں ان میں گائوں کے لوگ بن بلائے بھی پہنچ جاتے تھے جس کا برا بھی نہیں منایا جاتا تھا ہاں شہر کے اندر یہ بن بلائے مہمان بہت ہی کم ہوتے تھے ‘ اس حوالے سے کئی ایک واقعات بھی پشاور کی ان تقریبات سے جڑے ہوئے ہیں ‘ بزرگ ادیبوں ‘ شاعروں سے ایک ایسے واقعے کے بارے میں بھی سن رکھا ہے جس کی وجہ سے تقریب میں بدمزگی ہو گئی تھی ‘ واقعہ کچھ یوں ہے کہ دو اشخاص اکثر صبح ناشتے کے بعد کلف لگا استری شدہ جوڑا بدل کر شہر کی گلیوں میں گھومنا شروع کردیتے ‘ جبکہ ان کا یہ سلسلہ ہفتے اور اتوار کی رات بطور خاص ہوتا کیونکہ انہی راتوں میں باراتیں اور ولیمے جگہ جگہ وقوع پذیر ہوتے ‘ یہ گھومتے گھومتے ایسے ہی کسی تقریب میں جا کر بڑے اطمینان سے بیٹھ جاتے ‘ اب دلہن والے یہ سمجھتے کہ ان کا تعلق دولہا کے خاندان سے ہو سکتا ہے جبکہ دولہا والے انہیں دلہن کے گھرانے کا سمجھ کر آئو بھگت کرتے ‘ یوں یہ ”واردات” مکمل کرکے یہ جا وہ جا’ مگرایک بار یوں ہوا کہ خونچے پر ان کے ساتھ دو ایسے افراد بیٹھ گئے جن میں سے ایک نے پہلے تو قورمے کی پیالی پلائو پر الٹ دی جو اکثر ہمارے ہاں ایسا ہی کیا جاتا ‘ اس کے بعد مزید سادہ چاول منگوائے گئے تو ایک صاحب نے نہ صرف کوفتوں کی پلیٹ بلکہ ساگ کا سالن بھی چاولوں پر ڈال کر کھانا شروع کر دیا اب ان بن بلائے مہمانوں کو یہ حرکت ناگوار گزری تو غصے میں آکر نہ صرف کسٹرڈ کا پیالہ چاولوں پر الٹ دیا بلکہ دوسرے نے پانی کا جگ اٹھا کر چاولوں کی غوری پر الٹاتے ہوئے کہا ‘ لو کھائو ‘ اگر تمہیں کھانے کی تمیز نہیں ہے تو شریف لوگوں کی محفل میں آتے ہی کیوں ہو؟ اس پر ہنگامہ کھڑا ہو گیا اور دولہا دلہن دونوں کے رشتہ دار آگئے ‘ اور ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ یہ صاحبان کس کے مہمان ہیں ‘ دراصل ہوا یہ تھا کہ جن صاحب نے چاولوں پر کوفتے اور ساگ کی پلیٹیں الٹی تھیں وہ دولہا کے ماموں تھے اس لئے خوب شور مچا ‘ دولہا والوں نے اسے اپنی بے عزتی سے تعبیر کیا ‘ مگر جب بات تحقیق کے مراحل سے گزری اور جانبین میں سے کسی نے بھی ان کو اپنا مہمان ماننے سے انکار کیا تو اس کے بعد ان بن بلائے مہمانوں کی جو حالت ہونی تھی اس کا ذکر نہ ہی کیا جائے تو بہتر ہے ۔ یعنی بقول شکیب جلالی
رہتے ہیں کچھ ملول سے چہرے پڑوس میں
اتنا نہ تیز کیجئے ڈھولک کی تھاپ کو
بات بن بلائے مہمانوں کی ہو رہی تھی ‘ اور ماضی میں اس حوالے سے خصوصاً دیہات میں بناء کسی استثنیٰ کے سب کو خوش آمدید کہنے کی روایت کا ذکر ہو رہا تھا ‘ مگر اب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے ‘ ایک تو آبادی میں بے پناہ اضافہ ہو چلا ہے اوپر سے مہنگائی کی شرح کہاں سے کہاں جا پہنچی ہے ‘ اس لئے اب شہروں کے اندر تو جانے دیں ‘ دیہات میں بھی لوگوں نے بہ امر مجبوری مہمانوں کی تعداد کنٹرول کرنا شروع کر دی ہے ‘ اس کی ایک او وجہ بھی ہے اور وہ یہ کہ پہلے دیہات میں زیادہ تر ”غٹے ورژے” یعنی موٹے چاول پکائے جاتے تھے ‘ اور چار پانچ دیگ پورے گائوں کے لئے کافی ہوتے تھے ‘ اس ضمن میں شہر سے جانے والے احباب اپنے ساتھ اچار بھی لے جاتے جبکہ متعلقہ گائوں سے باہر ایسے افراد بھی ہوتے جو درخت کی ٹہنیوں سے مسواک کی طرز پر بنائی ہوئی چھوٹی چھوٹی ڈنڈیاں بھی فروخت کرتے دکھائی دیتے تھے (اب بھی شاید ہوں) یہ لکڑی کی ڈنڈیاں چالوں کے سینک(پشتو میں خانک کہتے ہیں) میں بار بار اس لئے ماری جاتی ہیں تاکہ چاول ٹھنڈے ہو کر زباں اور منہ نہ جلا دیں ‘ دیہات کا ایک رواج یہ بھی ہے کہ جیسے ہی چاولوں کے سینک لا کر رکھے جاتے ہیں تو اکثر قریبی رشتہ دار وہ اٹھا کر گھر لے جاتے ہیں اور ان کو دوسرے سینک میں چاول ڈال کر کھانے کے لئے دیئے جاتے ہیں ‘ لیکن اب معاملہ بہت ہی دگر گوں ہوچکا ہے اب دیہات میں اکثر لوگ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ یار ان لوگوں کو تو ہم نے بلایا بھی نہیں مگر ”بے شرمی” کی حد ہے کہ بن بلائے چلے آئے ہیں ‘ ان حالات میں اکثر یوں بھی ہوتا ہے کہ بے چارے میزبان کو سبکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ بن بلائے مہمان سب چٹ کر جاتے ہیں اور میزبان کے ان مہمانوں کے لئے کچھ نہیں بچتا جو دیر سے پہنچتے ہیں ۔ دراصل دیہات میں کھانا صبح صبح ہی کھول دیا جاتا ہے جبکہ شہروں سے جانے والے مہمان دوپہر کے قریب دور دراز کا سفر طے کرکے پہنچتے ہیں تو آگے میدان خالی ہوتا ہے رہی بات شہر کی تو یہاں اگرچہ اب بارات اور ولیمے بڑے ہالوں میں مہمانوں کی آمد کے لئے منعقد کئے جاتے ہیںمگر وہاں بھی”یارلوگ” کسی نہ کسی طور حاضر ہو ہی جاتے ہیں ‘ اس سلسلے میں بھی اب حفظ ماتقدم کے طور پر دعوت ناموں میں ہم نے ان الفاظ کو بھی شامل ہوتے دیکھا ہے کہ بن بلائے مہمانوں سے معذرت کہ بغیر دعوت کے کھانا کھانا حرام ہے ‘ وغیرہ وغیرہ اب آپ سے کیا پردہ ہمارے احباب میں بھی بعض ایسی شخصیات موجود ہیں جو ایسی دعوتوں میں اپنے ساتھ اپنے بچوں ‘ دوستوں وغیرہ کو لے جاتے ہیں جو یقینا میزبانوں پر بوجھ ڈالنے کے برابر ہے ‘اس حوالے سے اپنے بیٹوں کے ولیموں کے حوالے سے ہمیں بھی تلخ تجربات سے گزرنا پڑا ہے ‘ مگر بن بلائے مہمانوں سے جان نہیں چھوٹی ‘ حالانکہ بغیر دعوت کے کسی کے ہاں پہنچ جانا یا ساتھ کسی کو لے جانا اخلاقی اور مذہبی دونوں لحاظ سے ناجائز کے زمرے میں آتا ہے مگر کسے پروا ہے ؟
گریہ ہی نہیں اک درو دیوار کا دشمن
اس خانہ خرابی کے ہیں اسباب بہت سے

مزید پڑھیں:  بجلی ا وور بلنگ کے خلاف اقدامات