فکر و عمل کی ضرورت

وطن عزیز کتنا خوبصورت ملک ہے اس کا اندازہ شہروں سے نکل کر ہوتا ہے کچھ سالوں پہلے کی پرانی تصویریں دیکھیں تو پشاور میں آبادی کم اور درخت زیادہ نظر آتے تھے آہستہ آہستہ شہرائو کا عمل تیز ہوتا گیا تو آج چند ایک مقامات کے علاوہ درختوں کا کہیں نام و نشان بھی نہیں پرندوں کے گھونسلے نہ رہیں اور ماحول ناموافق ہوجائے تو ان کا پرواز کرنا فطرت کا تقاضا ہوتاہے اب دوردور تک کوئی چڑیا اڑتی نظر نہیں آتی پرندوں کا کوچ کرنا کوئی اچھی علامت نہیں ہوتی پشاور اب پھولوں کا نہیں کنکریٹ کا ا یسا بے ہنگم شہر بن گیا ہے کہ بدقسمتی سے اس کی کوئی منصوبہ بندی اور نقشہ نہیں ہر طرف بے ہنگم آبادی زرعی اراضی ہڑپ کرتی گئی۔اب صرف پشاور نہیں سوات ‘ ناران ‘ کاغان یہاں تک کہ چترال جیسے آخری سرحدی علاقے کے آخری کنارے تک جائیں تو بھی آپ کو فطرت سے کھلواڑ نظر آئے گا۔ بے ہنگم سی تعمیرات اور پانی کو آلودگی کاشکار بنانے کے اسباب ماحولیاتی آلودگی پلاسٹک کے کچرے کے ڈھیر غرض ہم انسانوں نے اپنے مسکن ہی نہیں چرند و پرند حیوانات اور جنگلی حیات کے مسکن کو بھی نہیں چھوڑا کوئی جگہ ہم سے محفوظ نہیں پہلے ہمارا ملک بہت ہی خوبصورت ہوا کرتا تھا اور ہر چیز صاف ستھری اور خوبصورت لگتی تھی شہر قصبے گائوں ندی نالے چشمے نہریں ندیاں پہاڑ دریا سڑکیں کچے پکے راستے اور کھیت و باغات سبھی کچھ حسن و خوبصورتی کے شاہکار تھے صاف ستھرا ماحول ہوا کرتا تھا موسم اپنے وقت پر بدلتے مگر جیسے جیسے ہم فطرت سے چھیڑ خانی کرتے گئے تو اب دیکھیں موسم کی تباہ کاریاں کس طرح سے فطرت سے کھلواڑ پر رد عمل دے رہی ہوتی ہیں۔ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے اب فصل بونے اور فصل کاٹنے کا موسم بھی متاثر ہو رہا ہے پہلے کسان وقت پر فصل لگاتے اور کٹائی کا موسم ہوتا سب کچھ فطرت کے اصولوں کے مطابق چلتاتھا لیکن اب پہلے جیسے ماحول نہیں رہا جس کا ذمہ دار جانور نہیں بلکہ انسان ہے اب اس دنیا کو کسی اور مخلوق سے نہیں اشرف المخلوقات سے خطرہ ہے اور انسان ہی اس دنیا کی تباہی کا ذمہ
دار ہے ۔ انسان نے اپنی کارستانیوں سے ماحول کو آلودہ کیا ہے اس کی وجہ سے اب فضا تک زہریلی ہو چکی ہے یہاں تک کہ سانس لینے کے لئے صاف اور شفاف ہوا تک دستیاب نہیں ندیاں چشمے اور دریا آلودہ اور بدبودار ہو چکے ہیں اور بدقسمتی سے بجائے اس کے کہ اس پر توجہ دی جائے مزید آلودگی کے ساماں کئے جارہے ہیں یہاں تک کہ استعمال شدہ پانی کے نکاس کی لائنیں تک نہروں ‘ ندیوں اور دریائوں میں ڈال دی گئی ہیں اور آلودہ پانی مسلسل صاف پانی میں شامل ہو رہا ہے جس میں گٹر کا پانی بھی شامل ہے صاف پانی میں انسانی فضلے تک کی آمیزش ہوتو پینے سے لے کر آبی حیات تک کسی کے لئے بھی یہ پھر صاف نہیں رہتا زہریلی گیسوں اور گاڑیوں کے دھویں سے فضا بھی بری طرح آلودگی کا شکار ہے غرض ہم نے پانی ‘ زمین اور فضا حیات انسانی اور ہرذی روح کے لئے ضروری جگہوں اور مقامات میں سے کسی ایک کو بھی خالی نہیں چھوڑا۔ زہریلی گیسوں اور دھویں نے آسمان کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا اوزون کی تہہ محفوظ نہیں اور سورج کی مضر شعائیں براہ راست ہم تک پہنچ رہی ہیں ماحولیاتی وفضائی و آبی آلودگی سے قسم قسم کی خوفناک بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں پہلے ماحول اتنا آلودہ نہیں تھا جتنا اب ہوا ہے ۔ اس حوالے سے شعور کے نام سے جو کام ہو رہا ہے اس کے زیر اہتمام واٹس ایپ پیغام کی صورت میں اپنے متعلقین کو جس طرح آگاہی کے پیغامات بھیجیجا رہی ہے ان کوپڑھ کر آپ بھی اندازہ لگایئے کہ بنی نوع انسان کے ہاتھوں اسی دنیا اور اس میں رہنے والی ہر ذی روح چیز کو کس حد تک خطرات ہیں پانی اور ہوا کو کیسے آلودہ کیا جارہا ہے اس جانب کچھ اس طرح سے توجہ دلائی گئی ہے کہ
پلاسٹک کی آلودگی کم سے کم کیسے ہوسکتی ہے؟جس ے جواب میں بتایا گیا ہے کہ
(1)ایک بار استعمال ہونے والی پلاسٹک کی چیزوں کی پیداوار پر بھاری ٹیکس لگاکر تاکہ وہ بہت مہنگی ہوجائیں۔
(2) پلاسٹک کی ری سائیکلنگ اور محفوظ نعم البدل بنانے والی صنعتوں کو خوب مراعات دے کر تاکہ وہ سستی ہو جائیں۔
(3)پلاسٹک کے نقصانات پر عوامی آگہی بیدار کرکے تاکہ خوردہ سطح پر اس کی بنی ہوئی چیزوں کی طلب کم ہو اور انہیں بنانے والے نعم البدل کی طرف جائیں۔
(4)ایک بار استعمال ہونے والی پلاسٹک کی مصنوعات پر بلا لحاظ و مروت پابندی لگا کر اس پر سختی سے عملدرآمد کرکے۔
(5)حکومتی عزم اوراداروں کی اہلیت دیکھتے ہوئے مذکورہ بالا چاروں حل کو جزوی طور پر لاگو کرکے۔یا پھر
(6)لمبی لمبی رپورٹیں بناکر، بلند و بالا دعوے کرکے اور خوب تقریریں جھاڑ کر ظاہر کرتے رہو کہ کام ہورہا ہے۔فضائی آلودگی کے خطرات سے آگاہی ضروری ہے ۔ زیادہ درجہ حرارت میں فضائی آلودگی مزید نقصان دہ ہو جاتی ہے کیونکہ شدید حبس میں خطرناک باریک ذرات فضاء میں دیر تک موجود رہتے ہیں جوتھکاوٹ جسم میں پانی کی کمی ‘ چکر آنا ‘ سردرد ‘ الٹیاں آنے اور غشی کے دورے پڑنے کا سبب بنتے ہیں۔زمین کی حفاظت ہماری ذمہ داری نہیں بلکہ مجبوری ہے اس لئے کہ اس کائنات میں رہائش کے قابل اور کوئی سیارہ موجود نہیں۔لہٰذا دنیا کی حفاظت ہم سب کا فرض ہے اور ہر کام کی اپنی ایک اہمیت ہے جس کا تقاضا ہے کہ ہر اس کام سے بچھو جس سے ماحول کونقصان پہنچے اور ہر وہ کام آگے بڑھ کر کرو جس سے ماحول کوفائدہ ہو۔فکر اورعمل کے ساتھ کرہ ارض کو بچانے کے لئے ہمیں چھوٹے چھوٹے عملی کام کرنے ہوں گے مثلاً زیادہ سے زیادہ شجرکاری کرکے فضائی آلودگی میں کمی لائی جائے ‘گاڑی کا استعمال صرف ضرورت پڑنے پرکیا جائے تاکہ فضا میں دھوے میں اضافے اور گرد و غبار اڑانے میں کمی لانے کے لئے اپنے حصے کا کام انجام دیا جا سکے۔قدرتی وسائل بچائیں اور اشیاء کو پوری طرح استعمال کرنے کے بعد صرف بوسیدہ ہونے پر تلف کیا جائے۔
ذرا سوچئے کہ پہلے ماحول اتنا آلودہ نہ تھا جتنا آج کے دور میں ہوگیا ہے ۔ اب تو ہر طرف آلودگی ہی آلودگی نظرآتی ہے اور آنے والے وقتوں میں اس پر روک نہ لگائی گئی تو اس کا منظر اور بھی خوفناک ہو گا۔ فضا کی آلودگی بلاشہ عالمی مسئلہ بھی ہے لیکن ہم عالمی حالات نہیں بدل سکتے بہتر یہی ہو گا کہ ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی اپنی سطح پر اس پر توجہ دیں آلودگی میں اضافہ سے گریز اور آلودگی میں کمی کے لئے کوشاں ہوں۔ آلودگی کو کم کرنے کے لئے نچلی سطح تک لوگوں کی آگاہی کی سعی کی جائے تاکہ لوگ اس مسئلے کوسمجھ سکیں درخت آلودگی کم کرنے کا قدرتی ذریعہ ہیں شجر کاری پر انفرادی و اجتماعی طور پر توجہ دی جائے درخت ہمیں آکسیجن فراہم کرنے کا بڑا ذریعہ ہیں اس لئے ضروری ہے کہ لوگوں کو درخت لگانے کے فوائد سے آگاہ کیا جائے درخت کاٹنے کو قومی جرم قرار دیا جائے اور اس پر سختی سے عمل کیا جائے ماحولیات کا جو برائے نام محکمہ موجود ہے اس کو اب تو فیکٹریوں ‘ کارخانوں سے نکلنے والے دھوئیں کے بادل نظر آنے چاہئیں اور ندی نالوں کو آلودہ بنانے کے عمل پربھی ان کی توجہ ہونی چاہئے کارخانوں اور ہسپتالوں سے اور شہروں کا کچرا ٹھکانے لگانے اور زہریلے دھواں روکنے کے لئے سائنسی ذرائع اختیار کئے جائیںہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ملک عزیز سے آلودگی کوجلد سے جلد مٹانا انتہائی ضروری ہے اور اگر ہم آلودگی کو نہ مٹا سکے تو آلودگی ہمیں مٹادے گی۔

مزید پڑھیں:  موروثی سیاست ۔ اس حمام میں سب ننگے