دل یہ مانگے اور ‘ اب نسوار ہونی چاہئے

چلیں چھٹی ہوئی ‘ اب جتنے منہ اتنی باتیں ‘ یار لوگ کہہ رہے ہیں یہ پختونوں کو حج و عمرہ سے محروم رکھنے کی ”سازش” ہے حالانکہ ہر بات کے دو پہلو ہوتے ہیں اور اس کا روشن پہلو تو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حج و عمرہ پرجانے والے ان پختونوں کو جو نسوار کا نشہ کرتے ہیں اس بری عادت سے چھٹکارا دلانا مقصود ہو ‘ اخلاقی طور پر مقدس سرزمین یعنی مکہ اور مدینہ شریف کو”نسوار والی تھوک” سے محفوظ رکھنا ضروری بھی ہے اور ہم سب کا فرض بھی بنتا ہے ‘ اس لئے اگر سعودی عرب کی حکومت نے عازمین حج(عمرہ زائرین بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہوسکتے) پر حجازمقدس کے سفر کے دوران نسوار لانے کی پابندی عاید کر دی ہے ‘ تو اپنے ملک کو ہرقسم کی آلودگی سے پاک رکھنے کا سعودی حکومت کو حق حاصل ہے ‘ وہ جس چیز پر چاہیں پابندی لگا دیں ‘ انہیں کون چیلنج کر سکتا ہے ؟ سعودی شاہی خاندان اور حکومت کو دیر سے احساس ہوا ہے کہ نسوار قابل برداشت نیں ہے حالانکہ اکثر دوسرے خلیجی ممالک پہلے ہی نسوار پر پابندی لگا چکے ہیںمثلاً مجھے ایک مشاعرے میں شرکت کے لئے کئی سال پہلے قطر کا سفر کرنا پڑا تھا ‘ میرے میزبان اور دوست فیروزخان آفریدی اپنی گاڑی میں مجھے مشاعرے والے ہال لے جارہے تھے کہ اچانک انہیں احساس ہوا کہ وہ اپنی نسوار گھر ہی میں بھول آئے ہیں ‘ انہوں نے گاڑی آہستہ کی اور ادھر ادھر نظر دوڑانے لگے ‘ میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے ‘ یار نسوار کی شدت سے ضرورت محسوس ہو رہی ہے ‘ میں اپنی نسوار کی پڑیا گھر چھوڑ آیا ہوں ‘ اب کسی ایسے شخص کوڈھونڈ رہا ہوں جس سے نسوار مل سکے ‘ اگرچہ ہمارے قریب سے لاتعداد لوگ پیدل گزر رہے تھے جن میں قطر میں کام کرنے والے مختلف نسلوں کے لوگ تھے ‘ پختون بھی کئی ایک گزرے مگر فیروز خان نے کسی سے کوئی تعرض نہیں کیا ‘ البتہ دور سے ایک بزرگ بابے کو آتے دیکھ کر گاڑی روکی اور بابے کو پشتو زبان میں پکارا ‘ وہ قریب آیا تو نسوار طلب کی ‘ بابے نے ڈرتے ڈرتے ادھر ادھر دیکھا اور پھر جیب میں ہاتھ ڈال کر نسوار کی پلاسٹک کی پڑیا نکال کردی ‘ فیروز خان نے جلدی سے نسوار کی چٹکی بھری اور پڑیا بابے کو واپس کر دی ‘ میں نے راستے میں چلتے چلتے پوچھا ‘ اتنے لوگوں میں تم نے کیسے جانا کہ نسوار اسی بابے کے پاس ہی ہو گی؟ فیروز خان نے جواب دیا ‘ یہ صرف نسوار کا شوق کرنے والا ہی جان سکتا ہے کہ نسوار کس کے پاس ہوسکتی ہے گویا اس کے لئے تجربہ کار ہونا ضروری ہے ۔ اس پر مجھے ایک اور واقعہ یاد آگیا ‘ یہ ستمبر 1971ء کے نصف آخر کا قصہ ہے ‘ میں صحافت سے وابستہ تھا اور ریڈیو پاکستان میں پروگرام پروڈیوسر کے عہدے کے لئے انٹرویو دے چکا تھا ‘ میری سلیکشن بھی ہو چکی تھی مگر تقرر نامے کاانتظار تھا ریڈیو پاکستان کے ایک ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل کے نام مرحوم سید فارغ بخاری سے خط لے کر اپنے دوست اور کلاس فیلو آج کے مقبول شاعر مقیم امریکہ خالد خواجہ کے ساتھ راولپنڈی گیا (ان دنوں ریڈیو پاکستان کا ہیڈ کوارٹر سیٹلائٹ ٹائون راولپنڈی میں ہوا کرتا تھا) خالد خواجہ کے برادر بزرگ عالمی شہرت کے افسانہ نگار انور خواجہ بھی ان دنوں پی ٹی وی میں ایک اعلیٰ عہدے پر کام کرتے تھے ‘ ان کے گھر رات گزارنے کے بعد انور بھائی ہی کے ساتھ ریڈیو پاکستان کے ہیڈ کوارٹر گئے ‘ فارغ بخاری کا خط بھی دیا ‘ انور بھائی
نے اپنا تعارف بھی کرایا’ بڑے تپاک سے ملے اور فارغ مرحوم کا خط پڑھ کر انہوں نے اپنے پی اے کو بلوا کر میری تقرری کے بارے میں پیش رفت پوچھی’ پی اے نے خط میں میرا نام دیکھ کر کہا ‘ سر انہیں تو کل ہی اپوائٹمنٹ لیٹر بھیج دیا گیا ہے’ وہاں سے خوش خوش باہر آئے ‘ انور بھائی سے اجازت لی اور پشاور واپسی کے لئے مری روڈ پر ٹیکسی کی تلاش شروع کی ‘ خالد نے کہا ٹھہرو یار ‘ مجھے نسوار کی ضرورت ہے ( ان دنوں خالد خواجہ کو بھی نسوار کا شوق چرایا ہوا تھا ‘ سامنے آنے والے پر نظریں جمائے ہوئے ہم آگے بڑھ رہے تھے تو اچانک خالد کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی کہا’ لو نسوارکا مسئلہ حل ہو گیا ہے ‘ اس نے دور سے آنے والے ایک نوجوان کو مرکز نگاہ بناتے ہوئے اس کے پہنچتے ہی اس سے نسوار طلب کی تو میری حیرت کا ٹھکانہ نہیں رہا جب اس نوجوان نے جو کسی بھی لحاظ سے نسوار کا شوقین نظر نہیں آرہا تھا ‘ جیب سے نسوار کی ڈبیا نکالی اور خالد خواجہ نے نسوار کی چٹکی بھر کرمنہ میں رکھی ۔ اس حوالے سے میرا اپنا ہی ایک شعر ملاحظہ فرمائیں
کیا زمانہ تھا کہ ہر کوئی تھا رسیا پان کا
دل یہ مانگے مور اب نسوار ہونی چاہئے
بات ہو رہی تھی سعودی عرب کے تازہ حکم نامے کی ‘ جس کے تحت سعودی حکومت نے نسوار کو بھی منشیات کے زمرے میں شامل کرکے اسے لانے والوں کو خبردار کردیاہے کہ حج کے موقع پر نسوار لانے سے احتراز کریں ورنہ سخت سزا دی جائے گی ‘ چرس ‘ افیون ‘ ہیروئن اوراب آئس لانے پر تو پہلے ہی پابندی عائد ہے بلکہ ہیروئن لانے والوں کی گردن زدنی کی سزا لاتعداد لوگ بھگتنے کے باوجود بھی اسے مختلف طریقوں سے وہاں پہنچانے والے اب بھی اکثر پکڑے جاتے ہیں ‘ پاکستان میں گرفتار ہوں تو جرم ثابت ہونے پر چند سال قید کاٹنے کے بعد باہر آجاتے ہیں تاہم اگر سعودی سرزمین پر دھر لئے جائیں تو پھر زندگی سے ہاتھ دھو لیتے ہیں ‘ اب دیکھنا یہ ہے کہ نسوار لے جانے والوں کو کیا سزا ملے گی ۔ البتہ اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ نسوار سے مراد ہمارے ہاں تیار ہونے والی نسوار ہے یا اس میں سونگھنے والی نسوار بھی شامل ہے ‘ جسے انگریزی میں(snuf)کہتے ہیں اور جو بنتا توپشاور ہی میں ہے اور جو وسط ایشیائی ریاستوں ‘ روس ‘ تاجکستان ‘ کرغزستان ‘ ترکمانستان ‘ سمرقند ‘ بخارا وغیرہ میں استعمال کیا جاتاتھا(اب بھی یقیناً ہوگا)اس سونگھنے والے نسوار کو دراصل محولہ ممالک میں شدیدسردی ‘ برف باری کی وجہ سے موسمی بیماریوں ‘ زکام ‘ ناک بند ہونے وغیرہ کے علاج کے طور پر بھی استعمال کیا جاتاتھا ‘ وہاں کی اشرافیہ نے اس کے لئے چاندی کی چھوٹی ڈبیاں بنوا رکھی تھیں جن پر قیمتی نگینے جڑے رہتے تھے ‘ اور جو آسانی سے کوٹ کی اوپر کی جیبوں میں سما جاتی تھیں ‘ یہ سونگھنے والی نسوار قدیم زمانے ہی سے پشاور کی ایک مخصوص برادری کے کارخانوں میں تیار کی جاتی تھی جو نسواری برادری کے نام سے مشہور تھے ‘ اس کے علاوہ بھارت میں خینی خینی (khaini)کے نام سے نسوار اور گٹکے کو ملاکر ساشے تیار کئے جاتے ہیں جن میں کچھ دیگر مسالے بھی ڈالے جاتے ہیں اور ددنیا کے مختلف ممالک میں ہاتھوں ہاتھ لئے جاتے ہیں ‘ تو کیا سعودی حکومت ان سب پر بھی پابندی عاید کرے گی یا پھر ان کا ”نزلہ” صرف پاکستانی نسوار پر ہی گرے گا؟ بہرحال وہ محاورہ تو آپ نے یقیناسن رکھا ہوگا کہ ”شیرجنگل کابادشاہ ہے ‘ چاہے بچے دے ‘ چاہے انڈے دے ”۔ تو اب یہ تو ان کی مرضی ہے کہ جس چیز پر چاہیں پابندی لگا دیں ‘ ویسے بھی خدا لگتی کہئے تو نسوار کونسی اچھی چیز ہے بقول حسرت موہانی
اب تو آتا ہے یہی جی میں کہ اے محو جفا
کچھ بھی ہوجائے مگر تیری تمنانہ کریں

مزید پڑھیں:  بیرونی سرمایہ کاری ۔ مثبت پیشرفت