صحافیوں کا عالمی دن ۔۔۔ تاخیر پر معذرت

اصولی طور پر مجھے یہ کالم گزشتہ روز لکھنا چاہیے تھا تاکہ 3مئی کو صحافت کے عالمی دن کے موقع پر شائع ہوتا۔ چلیں تاخیر ہی سہی ایک دن میں کون سا قلم مزدوروں کے حالات بدل گئے ہوں گے۔
ہم صحافی لوگ بظاہر بڑے طرم خان بنتے ہیں دنیا جہان کے موضوعات پر بات کرنا لکھنا انہیں خبر اور تجزیہ کی صورت پڑھنے والوں کے سامنے رکھنا ہمارے فرائض میں شامل ہے۔ کیا ہم خود اپنے فرائض کی طے شدہ حدود سے آگاہ ہیں؟
بہت احترام کے ساتھ عرض کروں کہ ہم میں سے اکثر کے خیال میں جوتوں سمیت سامنے والے کی آنکھوں میں گھس جانا ہمارا حق ہے۔ سوال کرنے کے نام پر پگڑی اچھالتے ہوئے کپڑے اترواکر کسی کو ذلیل کرنا صحافت کی معراج ہے۔
اچھا اب تو یہ دن بھی دیکھنا پڑرہے ہیں کہ نکے وڈے تھانیدار کے تبادلے و تعیناتی کی خبر کے ساتھ اپنی فوٹو اخبار میں نہیں لگواسکتے تو سوشل میڈیا پر لگاکر ٹورشور سے لوگوں کو متاثر کرتے ہیں۔
ایک وقت تھا جب دوردراز کے چھوٹے پریس کلبوں میں ایک عدد میر منشی رکھا جاتا تھا وہ میر منشی دن بھر کی خبریں لکھتا یہ تب کی بات ہے جب ابھی فوٹو سٹیٹ مشین اور فیکس مشین وغیرہ نہیں آئے تھے کاربن پیپر رکھ کر لکھی گئی خبروں میں شہر کے نام سے آگے کریڈٹ لائن والی جگہ خالی چھوڑ دی جاتی تھی۔
(کریڈٹ لائن، یعنی خبر نگار، نمائندہ خصوصی، نامہ نگار اور رپورٹر وغیرہ) میر منشی کا کام مکمل ہوتا تو سب اپنی اپنی کریڈٹ لائن ڈالتے شبانہ ڈاکخانہ کے ذریعے خبریں اپنے اپنے اخبارات کو بھجوادیتے۔
بڑے شہروں میں رپورٹروں کے درمیان بارٹر سسٹم چلتا تھا اب بھی ہے یہ بارٹر سسٹم کرائم رپورٹروں میں سب سے زیادہ مرغوب ہے۔ دوسرے شعبوں کی رپورٹنگ کرنے والے بھی زیادہ تر اس اصول پر عمل کرتے ہیں۔
اس کا مطلب ہوتا ہے کہ چند الفاظ اور طرز تحریر کی تبدیلی کے علاوہ خبر ایک جیسی ہوگی۔
پرنٹ میڈیا کی بالادستی تب تک رہی جب تک الیکٹرانک میڈیا نہیں آیا تھا ۔ الیکٹرانک میڈیا اور اب ویب چینلوں نے تو سماں باندھ رکھا ہے۔ مجھ جیسے قلم مزدور پرنٹ میڈیا کے توسط سے صحافت کے کوچے میں آئے۔
میں نے کراچی کے ایک اخبار میں بچوں کا صفحہ مرتب کرنے سے قلم مزدوری کا آغاز کیا تھا نصف صدی بعد آج میں اردو کے دو اخبارات میں سے ایک کے لئے 30ایڈیٹوریل اور 28کالم لکھتا ہوں دوسرے اخبار کے لئے ایک ماہ میں 12سے 16کالم، یہی میری روزی روٹی کا ذریعہ ہے۔
ساعت بھر کے لئے رکئے میں آپ کو اپنی داستان حیات پھر سے نہیں سنانے لگا بلکہ عالمی یوم صحافت کی مناسبت سے تحریر نہ لکھنے کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتا ہوں۔
صحافت جو کبھی اس ملک میں معزز و معتبرا اور نظریاتی شعبہ سمجھا جاتا تھا آج لوگ اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ لوگ جو کہتے ہیں میں احترام کی وجہ سے ان سطور میں نہیں لکھنا چاہتا یہ احترام اصل میں اس شعبہ سے وابستہ ان قلم مزدوروں کی بدولت ہے جو آج بھی اپنے عصری شعور کے ساتھ صحافتی فرائض سرانجام دیتے ہیں۔
معاشرے میں صحافت اور صحافیوں بارے عمومی تاثر سے آپ واقف ہی ہیں۔ مزید آگاہی چاہتے ہیں تو اپنے چار اور موجود لوگوں میں سے کسی سے پوچھ کر دیکھ لیجئے۔
پاکستانی صحافیوں کی سب سے بڑی تنظیم بی ایف یو جے (اب تو اس دل کے ٹکڑے ہزار ہوئے والا معاملہ ہے) کے دستور میں لکھا ہے کہ صحافی وہ ہے جو اپنے ادارے کے پے رول پر ہو یعنی ماہانہ بنیادوں پر حق خدمت لیتا ہو اور اس کی گزربسر کا ذریعہ صحافتی خدمات کی تنخواہ ہو( یعنی گھر کا چولہا اسی آمدنی سے جلے چلے) ۔آج کیا صورتحال ہے۔ صحافیوں کے اکثر لیڈر پراپرٹی ڈیلر بنے ہوئے ہیں۔ زیادہ ترکی پراپرٹی ڈیلری ان صحافی کالونیوں کی عطا ہے جو چوہدری پرویزالہی نے 2002 سے 2007 کے درمیان والی اپنی وزارت اعلی کے دوران بنوائی تھیں۔
ان صحافی کالونیوں نے بے شمار لیڈروں کو ککھ پتی سے کروڑ و ارب پتی بنادیا۔ ہم اس پر بات نہیں کریں گے کہ صحافی کالونیوں میں پلاٹوں کی الاٹ منٹ کے مرحلے میں کتنے حقیقی قلم مزدور نظرانداز ہوئے کتنے غیرمستحق لوگوں کو پلاٹ ملے اور کہاں ایسا بھی ہوا کہ شوہر بیوی اور بیٹے کو شعبہ صحافت سے "منسلک” ہونے کے ” نام ” پر ایک ایک پلاٹ کا حقدار سمجھا گیا ہو اس طرح ایک گھر میں تین پلاٹ چلے گئے۔ پلاٹوں کی بندربانٹ نما الاٹ منٹوں میں پہلے دن سے دھڑے بندیوں کو بلند مقام حاصل ہے۔ایک وقت تھاجب شعبہ صحافت میں نئے آنے والوں کی سینئرز اپنی اولاد کی طرح تربیت کرتے تھے ان میں مطالعہ کا ذوق پیدا کرتے ان کا رجحان دیکھ کر متعلقہ شعبہ کے لئے رہنمائی کرتے تھے اب تو ہر طرف طرم خانوں کا دوردورہ ہے۔
مطالعہ اور مکالمے کے لئے مثالی شعبہ سمجھے جانے والے شعبہ صحافت میں آج کتنے لوگ مطالعے اور مکالمے پر یقین رکھتے ہیں؟ جن پریس کلبوں میں حسن اتفاق سے لائبریریاں موجود ہیں پتہ کرلیجئے کہ کتنی کتابیں وہاں بیٹھ کر پڑھتی جاتی ہیں اور کتنی ایشو ہوتی ہیں۔
آج چند ایک اخبارات کے کچھ لوگوں کے علاوہ اخبارات و الیکٹرانک میڈیا چینلز میں ویج بورڈ ایوارڈ کے مطابق تو نہیں پھر بھی قدرے مناسب حق خدمت ملتا ہے۔
ویسے ان چند اخبارات و الیکٹرانک چینلز میں بھی اب تین تین ماہ تنخواہ نہیں ملتی۔ دیگر اداروں میں بیگار کیمپوں جیسی صورتحال ہے۔
چند دن قبل اخباری شعبہ سے منسلک لوگوں کے مسائل پر گفتگو ہورہی تھی ایک دوست نے کہا شاہ رونا دھونا کیسا کوئی اور کام کرلو اپنے آنسو چھپاتے ہوئے عرض کیا نصف صدی بیت گئی قلم مزدوری کرتے اب کیا دال چاول کی ریڑھی لگالوں؟
لیکن مجھ سے یہ نہیں ہونا، یہ صرف میرا ہی نہیں میرے ہم عصر ان قلم مزدوروں کی اکثریت کا مسئلہ ہے جو ایک نظریہ کے تحت صحافت میں آئے تھے۔
پاکستان کے اکثر اخبارات میں کام کرنے والوں کو صوبائی حکومتوں کی مقررہ ماہانہ اجرت کے مساوی تنخواہ بھی نہیں ملتی یہ کڑوا سچ ہے۔
بیروزگاری کی ذلت کا بوجھ اٹھانے سے بچنے کے لئے مزدوری جاری رکھتے ہیں دوست احباب۔
آپ چند اینکروں، "طرم خانوں اور مخبر” صحافیوں، مالکان و صاحبزادگان کے کروفر کو دیکھ کر اکثریت کے بارے رائے قائم کرنے سے اجتناب کیجئے۔
پاکستان میں آزادی اظہار کا مطلب ہے مالکان کے مفادات اور ریاست کے نظریہ ضرورت کی ترویج۔ ان کڑے حالات میں بھی اگر کوئی اپنی بات کرلیتا ہے تو یہ غنیمت ہے۔
بہرطور یہ بچی کھچی آزادی ان بزرگوں اور ساتھیوں کی قربانیوں کا ثمر ہے جنہوں نے چار فوجی ادوار میں مردانہ وار جدوجہد کی، جیلیں کاٹیں، کوڑے کھائے قیدیں اور لمبی بیروز گاریاں بھگتیں۔
پاکستانی صحافت کا 90فیصد آج میڈیا منیجری میں مصروف ہے۔ مالکان سے عام فرد تک کیلئے میڈیا منیجری ضرورت سے زیادہ مجبوری بن کر رہ گئی ہے۔
لکھنے کو اور بہت کچھ ہے لیکن اس پر اکتفا کیجئے۔ سچ یہ ہے کہ قلم مزدور جو دنیا جہان کے مسائل پر بولتے لکھتے ہیں کبھی اپنے ہی شعبہ کے ساتھیوں کے حالات پر بولیں لکھیں گے تو آپ بھی خون کے آنسو رونے پر مجبور ہوجائیں گے۔

مزید دیکھیں :   دیوار کیا گری میرے کچے مکان کی