طویلے کی بلا بندر کے سر

خیبر پختونخوا کے سابق وزیر خزانہ اور پی ٹی آئی رہنما تیمور سلیم جھگڑا نے ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھاکہ صوبے میں سکیورٹی حالات کا ذمہ دار ہمیں ٹھہرایا جا رہا ہے۔امن مذاکرات کا فیصلہ وفاق، سول اور عسکری اداروں نے کیا تھا اور صوبائی کابینہ کے ایک چھوٹے حصے کو مذاکرات کا حصہ بنایا گیا اور اس سے ہم انکار نہیں کرسکتے۔انہوں نے بتایا کہ دہشت گردوں کو واپس لانے اور ان کی آباد کاری کا تعلق صوبائی حکومت سے نہیں تھا یہ نیشنل سکیورٹی کا معاملہ ہے۔تیمور جھگڑا کا کہنا تھا کہ امن مذاکرات میں اہم کردار وفاقی حکومت اور ملٹری اداروں کا ہوتا ہے۔انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا عسکریت پسند گروہوں کو واپس لانے سے پہلے پولیس کو اعتماد میں لیا گیا تھا یا پولیس تیار تھی؟انہوں نے کہا کہ جب ملکی مفاد میں ایسے بڑے فیصلے کیے جائیں تو تمام اداروں کو پھر اس کو مان لینا چاہیے نہ کہ کسی ایک جماعت کو موردالزام ٹھہرایا جائے۔تحریک انصاف کی حکومت کے آخری دنوں میں طالبان کی مختلف علاقوں میں غیر مشروط واپسی میں جس کسی کا بھی کردار ہو اس کی ذمہ داری بہرحال اس وقت کی حکومت ہی پرعائد ہو گی اب سوالات کرنے اور ذمہ داری میں شریک ہونے کاکہنے کی بجائے اگر اس وقت کی حکومت سوات کے عوام کے جذبات کی ترجمانی یا کم از کم اس عوامی دبائو ہی کو خاطر میں لاتی تو آج صوبے میں یہ حالات نہ ہوتے ۔یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ سوات کے چپے چپے کے چھوٹے بڑے جواں و ضعیف العمر افراد باہر نکلے تو بامر مجبوری عسکریت پسندوں کی واپسی ہوئی جو صوبائی حکومت کی اجازت یا پھر مفاہمت سے آئے تھے ان کی واپسی سے بھی اختلاف نہیں لیکن اگران کو غیرمسلح واپسی اور ضمانت امن لی جاتی اور ہر تھانے کی حدود میں ان کی باقاعدہ انٹری ہوتی اور پولیس کو ان پر نظر رکھنے کی ذمہ داری دی جاتی تو حالات کنٹرول سے باہر نہ ہوتے جس طرح وہ یہاں سے گئے تھے اسی طرح ان کی واپسی وہ غلطی تھی جو جس سے بھی سرزد ہوئی ہو اب درد سر ہی نہیں خطرہ بھی بن چکا ہے جسے ختم کرنے کے لئے ایک مرتبہ پھر ان حالات سے گزرنے کا خدشہ ہے جسے آگ و خون کا دریا عبور کرنے سے تشبیہ دی جا سکتی ہے ۔غلطی جس سے بھی سرزد ہوئی ہو اب اسے من حیث القوم بھگتنا پڑ رہا ہے اور ہر غلطی کی طرح اس بڑی غلطی کی بھاری قیمت بھی چکانا پڑے گی۔

مزید پڑھیں:  فیض آباد دھرنا ، نیا پنڈورہ باکس