بہتری کی کوئی توقع نہیں

وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری2011کے بعد سے بھارت کا دورہ کرنے والے پہلے پاکستانی وزیر خارجہ ہیں۔ بلاول کی بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر کے ساتھ دو طرفہ ملاقات متوقع نہیں ہے۔اگرملاقات ہو بھی جاتی ہے تو یہ ایک رسمی اور روایتی ملاقات ہی ہو گی دونوں ملکوں کے تعلقات پر اثرانداز ہونے کا باعث ہونا مشکل ہو گا۔اس دورے کے حوالے سیبھارتی میڈیا کا ملاجلا ردِ عمل ہے تاہم عمومی رائے یہی ہے کہ بلاول بھٹو کی ایس سی او میں شرکت پاک بھارت تعلقات کی بحالی کی جانب بہتر قدم ہے۔غیر ملکی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم ایسے خطے کا احاطہ کرتی ہے جو پاکستان کیلئے تجارت، رابطوں اور توانائی کے شعبوں میں بہت اہم ہے، پھر یہ کہ اس تنظیم کی قیادت چین کرتا ہے جو پاکستان کا اہم اتحادی ہے، روس بھی اس فورم میں سرکردہ ہے جس کا پاکستان کے ساتھ اشتراک گہرا ہو رہا ہے، اس لیے کانفرنس میں شرکت نہ کرنا پاکستان کے علاقائی مفاد میںنہ تھا۔بنا بریں اس دورے کو اس کے اصل مقصد تک محدود دیکھنا زیادہ حقیقت پسندانہ امر ہوگا ماضی میں جب بھارتی وزیراعظم کے اچانک اور بغیر کسی دعوت کے از خود پاکستان آکر گزمجوشی کا مظاہرہ کرنے کے نتائج مثبت نہ رہے نیز پاکستان میں گزشتہ ایک عشرے سے زائد عرصے سے سی پیک کے خلاف سازشوں کے ضمن میں جوحالات رہے وہ اور ماضی کے دیگر واقعات کوملا کردیکھا جائے تو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کا بخوبی اندازہ ہو گا نیز مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا عمل تو بھارت کا ایک ا یسااقدام ہے کہ اس کے بعد تو عداوت اور عدوہی کا درجہ مستقل ہو گا الایہ کہ اس ضمن میں اور مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے کوئی بڑا بریک تھرو نہ ہو جس کی معجزاتی حالات کے علاوہ معروضی حالات میں توقع ہی عبث ہے ۔بنا بریں گیارہ برس بعد پاکستان کے وزیر خارجہ کا کسی باہمی رابطے کے بغیر علاقائی ضرورت پوری کرنے کے لئے بھارت جانے سے نتیجہ خیزی کی توقع نہیں۔اس امر کے اعادے کی ضرورت نہیں کہ گوا میں ایک بین الملکی تنظیم کا اجلاس ہے جس کا روح رواں دوست ملک چین ہے ایسے میں پاکستان کے پاس اس کانفرنس میں شرکت ہی کا انتخاب بچتا تھا۔ بہرحال اس موقع کو اگر شامل ممالک اور خاص طور پر بڑے ممالک دیگرملکوں کے باہمی تنازعات میں کمی لانے کی سعی کے طور پر کوشش کریں تو ایسا ممکن ہے مگر اس کی توقع نہیں دوسری جانب یہ ان ملکوں پر بھی منحصر ہے کہ ان کی پالیسیاں اور ارادے کیا ہیں فی الوقت دلی اور اسلام آباد قریب ہونے کے موڈ میں دکھائی نہیں دیتے اورجب دونوں جانب خواہش ہی موجود نہ ہوں تو بلاوجہ کے کیا توقعات وابستہ کئے جائیں۔

مزید پڑھیں:  بجلی ا وور بلنگ کے خلاف اقدامات