جامع تحقیقات کی ضرورت

خیبر پختونخوا حکومت نے ایک ہزار 109سوشل میڈیا انفلوئنسرز کے اکائونٹس کی چھان بین کیلئے معاملہ وفاقی تحقیقاتی ادارے کو بھیج کر ریاست مخالف پروپیگنڈے کی اطلاعات پر چھان بین کی درخواست کی گئی ہے واضح رہے کہ سوشل میڈیا انفلوئنسرز کا منصوبہ گزشتہ دور حکومت میں شروع ہوا تھا اس منصوبے کو دو سال تک چلایا جانا تھا جس میں مالی سال 2021-22اورمالی سال 2022-23شامل ہیں منصوبہ رواں برس جون تک تھا تاہم نگران حکومت نے اسے اپریل کے آغاز میں ہی ختم کردیا اور ایک ہزار 109 انفلوئنسرز فارغ کر دئیے گئے منصوبے پر دو سالوں کا تخمینہ 24کروڑ 26لاکھ 65ہزار روپے لگا گیا تھا ۔گزشتہ دور حکومت میں بھرتی شدہ سوشل میڈیا انفلوئنسرز غیر قانونی امور میں ملوث تھے یا نہیں اس کا فیصلہ تو تحقیقات کے بعد ہی ہوسکے گا البتہ ایک سرکاری محکمے کا اس حوالے سے تحقیقات کے لئے وفاقی ادارے کوباقاعدہ خط بلاوجہ نہیں ہوسکتا بلکہ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ محولہ نوجوانوں نے حدود سے تجاوز کیاہوگااس سے قطع نظر اگر دیکھا جائے تو سوشل میڈیا پر ہر دوسرے شخص کی جانب سے اخلاقی اور قانونی دائرے کا خیال رکھنے کی زحمت کم ہی نظر آتی ہے تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم کو اگر اس میں دو قدم آگے قرار دیا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا یہ درست ہے کہ قیادت کا ان پر کنٹرول نہیں لیکن کم از کم کبھی اس کا نوٹس لینے کی بھی مثال شاید ہی ہو خیبر پختونخوا سرکاری وسائل سے اس طرح کے عناصر بھرتی کرنے کی ضرورت کیوں پڑی اور ان کارول تھااس حوالے سے اس وقت کی حکومت میں شامل افراد ہی جواب دے سکتے ہیںبہرحال اس سے انکار کی گنجائش نہیں کہ سرکاری وسائل سے اپنے لئے ایک ایسی ٹیم جو ان کی تنخواہ دار ہو مقرر کرنا سرکاری وسائل کا ضیاع اور کار عبث تھا جس کی بھی تحقیقات ہونی چاہئے بعید نہیں کہ شاہ سے زیادہ شاہ کے جذباتی وفاداروں نے نہ صرف حد سے تجاوز کیا ہو بلکہ ایسے افعال کا بھی ارتکاب کیا ہوجو ملک و قوم اور اہم ملکی اداروں کے حوالے سے قابل اعتراض اور قابل گرفت ہوں اسکی جامع تحقیقات کے بعد ذمہ دار عناصر کوقانون کے کٹہرے میں لاکھڑا کیا جائے اور وصول شدہ تنخواہ واپس لے کر قومی خزانے میں جمع کرائی جائے۔

مزید پڑھیں:  ''چائے کی پیالی کا طوفان ''