دہشت گردی اور سازش

پاڑہ چنارمیں پاک افغان سرحد کے قریب ایک ہائی سکول میں ٹارگٹ کلنگ کے دوواقعات میں اساتذہ سمیت 8 افرادجاں بحق ہوگئے ۔ رپورٹ کے مطابق جمعرات کو سنی مسلک سے تعلق رکھنے والے ایک معلم کو ڈی ایچ کیو ہسپتال پاڑہ چنار کی کیجولٹی میں لایا گیا تھا جو کہ نورکی گائوں اپر کرم کے قریب شلوزان روڈ پر نامعلوم افراد کی فائرنگ سے جا ں بحق ہوا تھا جس کے بعد شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے سات افراد بشمول گورنمنٹ ہائی سکول تری منگل میں امتحانی ڈیوٹی دینے والے4 اساتذہ مذکورہ سکول میں فائرنگ سے جاں بحق ہو گئے۔دریں اثناء شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں سے مقابلے میں پاک فوج کے6 اہلکار شہید ہوگئے۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ(آئی ایس پی آر)کے مطابق شمالی وزیرستان کے علاقے دیردونی میں سکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس کے نتیجے میں پاک فوج کے6 سپاہی شہید ہوئے جب کہ فورسز کی جوابی فائرنگ میں3 دہشت گرد مارے گئے۔دوسری جانب پشاور میں سرکاری عمارتوں پر دہشت گردوں کے حملے کا خطرہ ظاہر کیاگیا ہے دیکھا جائے تو کافی عرصے سے صوبے میں دہشت گردی کی اپنی نوعیت کی علیحدہ لہر کے دوران پولیس اور سرکاری عمارتوں کو خاص طور پر نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع ہوا ہے سرکاری اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات توکافی عرصے سے جاری ہیں جس سے دہشت گردی کی لہر کی ایک خاص سمت کا اندازہ ہوتا ہے ماضی کے باعث اس مرتبہ عوامی مقامات کونشانہ نہیں بنایا گیا ہے لیکن اس کے باوجود اس کے خطرات سے صرف نظر ممکن نہیں کہ دہشت گردوں سے کچھ بعید نہیں کہ وہ کب کس مقام کوکس شدت سے نشانہ بنائیں۔ پاڑہ چنار کے افسوسناک واقعے میں اس امر کی پوری کوشش نظر آتی ہے کہ جذباتی عناصر اس واقعے کو فرقہ واریت سے جوڑ دیں اور اس کے منصوبہ سازوں کا کام آسان ہوجائے کہ خدانخواستہ دو برادری کے افراد باہم مشت و گریباں ہوں مقام اطمینان یہ ہے کہ ماضی کے برعکس اب جذباتی عناصر کو بھی نہ صرف اس طرح کی سازشوں کے پس پردہ مقاصد کا بخوبی اندازہ ہوچکا ہے اس لئے اس طرح کے واقعات کو فرقہ وارانہ رنگ نہیں دیا جانا خوش آئند امر یہ ہے کہ مقامی عمائدین اور خاص طور پر ہر دو مسلک کے علمائے کرام اس طرح کی جذباتی صورتحال پیش آنے پر اپنے اپنے پیروکاروں کو سمجھانے کی ذمہ داری پوری کرتے ہیں اور انتظامیہ سے تعاون کی جاتی ہے ایسا کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ ماضی میں کرم ایجنسی کے عوام محولہ عناصر کے ہاتھوں نہایت مشکلات اور سخت حالات سے گزر چکے ہیں اور مقامی علاقائی اور مسلکی یکجہتی کو نقصان پہنچنے کی بہت سزا بھگت چکنے کے بعد اس نتیجے پرپہنچے ہیں کہ ان کو لڑوانے والے ہاتھ ہر دو مسلک کے ہمدرد نہیں بلکہ دونوں کے یکساں دشمن ہیں اس واقعے کے بعد بھی امید کی جانی چاہئے کہ عمائدین اور علمائے کرام انتظامیہ سے مل کر حالات کوکشیدہ ہونے سے بچاتے ہوئے اس سازش کے اصل اور پس پردہ کرداروں تک پہنچنے اور ان کو کیفر کردار تک پہنچانے میں اپنا کردارادا کریں گے ۔ محولہ واقعات کے علاوہ من حیث المجموع دیکھا جائے تو صوبے میں امن و امان کی صورتحال باعث تشویش ہے ایک مرتبہ پھر فضا میں خطرات کی بازگت ہے جس کا تقاضا ہے کہ جہاں حکومتی سطح پر اقدامات ہو رہے ہیں وہاں عوامی سطح پر بھی خبردار اور ہوشیار رہاجائے اور ممکنہ خطرات کے پیش نظرمساجد ‘ مدارس ‘ امام بارگاہوں اور دیگر عوامی مقامات پر حفاظتی اقدامات اختیار کرنے کی اپنی بھی کوششیں کی جائیں اور حفاظتی و احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں۔ ایسے عالم میں کہ آپریشن ضرب عضب اور آپریشن ردالفساد کے ذریعے دہشت گردوں کا بڑی حد تک صفایا کیا جا چکا تھا ملک کے مختلف حصوں بالخصوص بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات، سکیورٹی فورسز اور چوکیوں پر حملوں کے واقعات کا رونما ہونا اور سکیورٹی فورسز کا انٹلیجنس بیسڈ آپریشنوں پر مجبور ہونا جہاں ریاستی عملداری مضبوط بنانے کے جامع منصوبے بروئے کار لانے کی ضرورت اجاگر کر رہا ہے وہاں اس امر کا جائزہ لینے کی ضرورت بھی واضح ہے کہ دہشت گردوں کی ملک میں واپسی کیوں کر ممکن ہوئی؟ ۔ یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ کوئی گروہ کسی ملک میں تخریب، دہشت گردی، نقص امن یا ہراسگی پھیلانے والے اقدامات شروع کرتا اور بروئے کار لاتا ہے تو وہ تنہا نہیں ہوتا۔ اس کے پیچھے پوری منصوبہ بندی، سرمایہ، تکنیکی تربیت، رسد کے ذرائع اور بہت کچھ ہوتا ہے۔ عید کے دوسرے روز کبل میں جو دہشت گردی ہوئی وہ سوات میں بدامنی کی ان کوششوں کا اعادہ ہے جو ماضی میں بھی کی گئیں اور جن کے باعث آبادی کے بڑے حصے کو انتہائی مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستانی مسلح افواج اور سکیورٹی ایجنسیوں کی کاوشوں کے نتیجے میں جو امن و امان کی فضا قائم ہوئی، اسے دوبارہ بگاڑ کی طرف لے جانے کی کوششوں کو بہرصورت ناکام بنانے کی ضرورت ہے۔ پاکستانی عوام اپنے سیاسی رہنمائوں سے بھی توقع رکھتے ہیں کہ ملک کے نازک حالات پیش نظر رکھتے ہوئے اس کی بقا، سالمیت اور ترقی کے لئے مل بیٹھ کر کوئی مشترکہ لائحہ عمل بنائیں۔

مزید دیکھیں :   مئیر کراچی اور جماعت اسلامی