مونگ دلنااس ہی کو کہا جا تا ہے

پاکستان تحریک انصاف سیکرٹری جنرل اسد عمر نے پاکستان کی علا قائی تعاون کی شنگھائی کا نفرنس میں وزیر خارجہ بلا ول بھٹو کی شرکت پر کڑی تنقید کر تے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کی جانب سے ہاتھ نہ بڑھانے کے باوجو د یہ وہا ں چلے گئے ، پاکستانی سیاست کا ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ سیا ست دان اپنے مخالف کو نیچا دکھانے کے لیے ہر حربہ استعمال کر تے ہیں گو کہا یہ جاتا ہے کہ منہ سے نکلی ایک بار بار بار واپس نہیں پلٹتی ، یہاں یہ صورت حال ہے کہ ایک کہی گئی کسی مو ضوع پربات دن میں بار بار الٹے پلٹے کھا تی رہتی ہے ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ وزیرخارجہ بلا ول بھٹو کا یہ دورہ بھارت کا نہیں ہے پاکستان شنگھائی تعاون کانفرنس کا ممبر ہے جس کا اجلاس بھارت میں ہوااور تنظیم کے رکن کی حثیت سے پاکستان نے دیگر رکن ممالک کی طرح شرکت کی ، اگر وزیر خارجہ کا نفرنس میں پاکستان کی نمائندگی نہ کر تے تو یہ تنظیم سے عدم تعاون کا مظاہر ہ قرار پاتا ۔ عالمی برادری سے جڑ کر ہی کچھ پایاجا سکتا ہے ، دجہا ں تک اسد عمر کا تبصرہ ہے ان کو شاید معلو م نہیںکہ اس میں بھارت کی جانب سے ہاتھ بڑھا نے یا گھٹانے کا معاملہ نہیں تھا کیو ں کہ بھارت کا محض اتنا کر دار تھاکہ وہ میزبانی کے فرائض انجا م دے باقی تنظیم کے ذمہ داران کے معاملا ت تھے ، البتہ آنے جانے سے بہتر دیکھنا یہ ہے کہ اس امر کاجائز ہ لیا جائے کہ بھارت جیسے ملک جا کر وزیر خارجہ بلا ول بھٹو کی کا رکردگی کیا رہی ہے ، ایک بات تو پی ٹی آئی کی تما م لیڈر شپ تسلیم کرے گی کہ ان کے دور میں پاکستان کے خارجہ پالیسی کی وجہ سے انتہائی دوست ممالک کے ساتھ میںجو سرد مہری یا بگاڑ پیدا کردیا گیا تھا موجو د حکومت نے اس کو کا میا بی سے پاٹ دیا ہے ، اس امر کا اندزہ یوں بھی لگایاجا سکتا ہے کہ آئی ایم ایف جو ایک منصوبہ بندی کے ساتھ پاکستان کو قرضہ فراہم کرنے چوسرکھیل رہی ہے اس کے باوجو د پاکستان دیو الیہ کی حدو د سے دور ہو تاجا رہا ہے ، جس کی بنیا دی وجہ صرف یہ ہے کہ پاکستان کے دوست از سرنو پاکستان کی امداد کے لیے کمر بستہ ہوگئے ہیں ، آئی ایم ایف قرضہ فراہمی میں جو ٹال مٹول کیے ہوئے ہے اس سے ایک ہی مقصد نظر آتا ہے کہ پی ٹی آئی نے اپنے دور میں آئی ایم ایف کے جس معاہدے کی خلا ف ورزی کی مرتکب ہوئی تھی اس کو بہا نہ بناکر پاکستان کی اقتصادی مشکلات کو گہرا کیا جا تارہے اور اس کے لیے عمیق العمیق اقتصادی گہر ائی کھو د دی جائے جس میں وہ سسکیاں لیتا رہے ، پی ٹی آئی شنگھائی کا نفرنس میں شرکت پرموجودہ حکومت کو جو حرف تنقید بنائے ہوئے یہ یہ بھی عیاں کر ے کیا پاکستان کو اس بائیکاٹ کا فائدہ حاصل ہو تا ، جس طرح او آئی سی کے اجلا س کا پاکستان نے بائیکا ٹ کرکے او آئی سی کے معزز ارکا ن کے سامنے پاکستا ن کا کشمیر اور بھارت کی چیر ہ دستیو ں کو ننگا کر نے کاموقع گنو ا دیا تھا ، جب سے ملک کے سیاستدانو ں کی جا نب سے سیا سی مفا د کی حرص میں پاکستان کے قومی مفا د کو پس پشت ڈالنے کا رواج پایاہے تب سے پاکستان کئی بین الا قوامی امو ر میں پیچھے رہ گیا
ہے ، پاکستان پر شنگھائی کا نفرنس میںبھارت جا کر شرکت کو تنقید کا نشانہ بنا نے والے یہ بتائیں کہ پاکستا ن اس میںکیا کھویا ، کیا پاکستان نے کشمیر سمیت اپنے دیگرمعاملا ت کی بھر پور ترجما نی نہیں کی ، یا وہ یہ چاہتے تھے کہ بلا ول بھٹو بھی کا نفرنس میں بھارتی وفد کی طر ح تحریک انصاف کا وہ ترانہ الاپتے جو اس نے بھارت کی طرف سے کشمیر کو ہڑپ کر نے کے بعد کشمیر کی طرف منہ کر کے الاپا تھا ،اس ترانے کے کیا اثرات نکلے ، شنگھائی کا نفرنس میں وزیر خارجہ بلا ول بھٹو نے واضح الفاظ میں تنظیم کو آگاہ کر دیا کہ پاکستان کا مئو قف وہی ہے کہ اگست 2019 میں بھارت کی جانب سے جو اقداما ت کیے گئے وہ کا فی سنگین ہیں اور جب تک ان پر نظر ثانی نہیں کی جا تی تب تک معنی خیز دوطرفہ بات چیت مشکل ہے ، اس کا نفرنس میںبلاول بھٹو نے بھارتی وزیر خارجہ ایس جئے شنکر کی جانب سے دہشت گردی کے بارے میں کا نفرنس کے سامنے جو تصویر پیش کی اس کا بھی بلاول بھٹو نے بھارت کی سر زمین کھڑے ہوکر جو اب دیا اور بھارت کو کہا کہ سفارتی پوائنٹ اسکو رنگ کے لیے دہشت گردی کو ہتھیار بنانے میں نہ الجھایا جائے ، انھو ں نے ایک چپت یہ بھی ما ری کہ دہشت گردسرگرمیو ں کے لیے مالیہ کی فراہمی کے تما م ذرائع کسی بھید بھا ؤکے بغیر بند ہو نا چاہیں ، اور دہشت گردی کااس کی تما م اشکال میں بشمول سرحد پا ر دہشت گردی خاتم ہو نا چاہیے ، وزیرخارجہ بلاول بھٹو نے بھارتی وزیر خارجہ کے ایک ریماکس پر کہا کہ ہما رے عوام کی مجموعی سلا متی ہما ری مشترکہ ذمہ داری ہے، دہشت گردی عالمی سلا متی کے لیے خطرہ بنی ہوئی ہے ، بلا ول بھٹونے بھارت پر طنزکرتے ہوئے کہا کہ ، دہشت گردی کے موضوع پر جب وہ اظہار خیال کرتے ہیںتو صرف پاکستان کے وزیر خارجہ کی حثیت سے نہیں بلکہ اس ماں کے بیٹے کی حثیت سے بھی اظہار خیال کرتے ہیںجو دہشت گردوںکے ہاتھ قتل ہوئیں ، وزیر خارجہ پاکستان نے یہ بھی بتا یاکہ میر ے ملک کے عوام کئی دہشت گردی کے حملے جھیل چکے ہیں ، یہ ہی نہیں بلا ول بھٹو نے اس موقع پر افغانستان پر زور دیا کہ وہ افغان سرزمین کا استعمال دہشت گردی کے لیے نہ ہو نے دینے کا اپنا وعد ہ ایفا کرے، کا نفرنس میںوزیرخارجہ نے سعودی عرب اور ایران کے اختلاف دورکرنے میںچین کے کر دار کا خاص طور پر تذکرہ کرکے کانفرنس کے شرکاء کو آگا ہ کر دیا کہ پاکستا ن غیر جانبدار خارجہ پالیسی کاحامی ہے اور آئندہ کے خارجہ تعلقات کے خطوط بھی متعین کر دئے ، پاکستان نے اس کا نفرنس میں شرکت کرکے عالمی برادری پر واضح کر دیا کہ وہ بھارت کے کشمیر کے بارے میں 2019کیے گئے اقدامات کو غیر قانونی قرار دیتا ہے اور پاکستان کا کشمیر سے متعلق ٹھوس اور واضح مئوقف ہے اور پاکستان کا ہمیشہ مئوقف رہا ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پرعمل کیا جا ئے بھارت بین الا قوامی اور دوطرفہ سمجھو تو ں کی خلا ف ورزی کرتا ہے یہ بھی بیا ن کر دیا کہ بات چیت کا کیا مستقبل ہوگا 2019کااقدام واپس نہ لینے تک بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات میں تبدیلی نہیں آسکتی ہے ، پی ٹی آئی کے ایک اور لیڈر فرخ حبیب بھی بولے کہ بلا ول سیر وتفریح کر تے پھرتے ہیں وزارت خارجہ سیر وتفریح کے لیے ، کیا بھارت کی سر زمین پر ہی کھڑ ے ہو کر بھارت کے سینے پر جو مونگ دلی ہے کیا اس کو تفریح کا نا م دیا جا سکتا ہے ۔

مزید پڑھیں:  کور کمانڈرز کانفرنس کے اہم فیصلے