وزیر خارجہ کا مسکت جواب

وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کا بھارت کی سرزمین پر دو ٹوک موقف پر بھارتی وزیر خارجہ کا سیخ پا ہو کرپاکستان پر الزامات کی بارش نوجوان وزیر خارجہ کی برتری اس لئے ہے کہ انہوں نے نہایت دھیمے اور خوشگوار انداز میں بھارتی صحافیوں کے تندو تیز اور زہریلی قسم کے لب و لہجے کا سامنا کیا اور اپنے بھارتی ہم منصب کے برعکس مدبرانہ لہجہ اپنا کر برتری حاصل کی ۔ یہ بات قابل تحسین ہے کہ انہوں نے تمام سوالات کا مدلل جواب ہی نہیں دیا بلکہ پاکستانی موقف کو پوری طرح اجاگر کرنے کی ذمہ داری بھی پوری کی۔سرحد پار دہشت گردی کے بھارتی الزام پر بلاول صحافی کو دو ٹوک جواب دے کر خاموش کرا دیا۔بھارتی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے بلاول نے کہا کہ کل بھوشن جادھو بھارتی نیوی کمانڈر اور ریاستی ایکٹر تھا، وہ پاکستان میں کیا کر رہا تھا؟ اگر وہ بھارتی نہیں تو بھارتی حکومت اس کا دفاع کیوں کر رہی ہے؟وزیر داخلہ بلاول نے بھارتی میزبان سے کہا کہ پاکستان تو ممبئی حملے کا عدالتی ٹرائل کر رہا ہے ، مگر بھارت سمجھوتہ ایکسپریس حملے کے ملزمان کو بَری کر چکا ہے ، جس میں پاکستانی شہید ہوئے ۔بلاول نے کہا کہ پاک بھارت تعلقات میں انجماد پانچ اگست 2019ء کو کشمیر پر بھارت کے یک طرفہ اقدام سے آیا ، بھارت میں جب بھی الیکشن ہوں، وہ دہشت گردی کے کسی واقعے کی آڑ میں پاکستان کو بدنام کرتا ہے ، جب کہ پاکستانی الیکشنز میں بھارت کی کوئی اہمیت کردار نہیں۔انہوں نے کہا کہ کابل پر قبضے کے بعد اب پاکستان اور افغانستان دہشت گردوں کا پہلا نشانہ ہیں مگر یہ آخری نشانہ نہیں ہوں گے ، ماضی میں جو کچھ بھی ہوا مگر ہمیں مل کر کام کرنا چاہیے۔بھارت کے ساتھ مقبوضہ کشمیر کا تنازعہ تو پرانا ہے لیکن اگست 2019ء میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بھارتی اقدام کے بعد دونوں ملکوں میں کشیدگی میں اضافہ ہوا وزیر خارجہ کا بھارت میں کشمیر کے حوالے سے دو ٹوک موقف حقیقت پسندانہ اور قومی مفاد کے تقاضوں کا مظہر ہے انہوں نے جس پر اعتماد انداز میں دہشت گردی کے الزام کے رد اور کشمیر پر موقف اپنایا وہ بڑی کامیابی ہے بھارت کے دورے کے موقع پر کامیابی اور اعتماد پر پورا اترنا جو انسال وزیرخارجہ کی بھی کامیابی ہے جس سے ان کے قد میں اضافہ ہونافطری امر ہے۔

مزید پڑھیں:  دہشت گردی میں اضافہ