اسلام آباد سے گوا !

ریاستوںکے مابین سفارتکاری صدیوں سے رائج ایک ایسا عالمی رواج ہے جس کی کامیابی نے جہاں بہت سی انسانی جانوں کو تحفظ فراہم کیا ہے تو وہیں اس کی ناکامی کی وجہ سے خون کی رنگولی کھیلی جاتی ہے، سفارتکاری دو ریاستوںکے درمیان معاشی، تجارتی اور اجتماعی تعلقات کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ جبکہ سفارت کاری کی اہمیت ہمسایہ ممالک کے ساتھ مزید بڑھ جاتی ہے لیکن پاکستان کے لئے خیر سگالی کے ساتھ سفارت کاری کو قائم رکھنا اس وقت ناممکن ہوا جب اس کی جارحانہ ہمسایہ ریاست بھارت نے اپنے ہی آئین کی شقوں کو ختم کرتے ہوئے کشمیریوں پر وہ قہر ڈھایا جو آزادی کی جدوجہد میں اپنی نسلوں کی قربانی دینے والوں کے لئے سوہان روح تھا۔ دراصل پاکستان اور بھارت کی آزادی کے ساتھ سے ہی ان پرنس ریاستوں کا جو معاملہ اٹھا اس کو وقتی طور پر بھارت کے آئین میں آرٹیکل370 اور 35 اے کو شامل کر کے تھاما گیا۔ آرٹیکل 370 بھارتی آئین کا ایک خصوصی مضمون ہے جس کے تحت بھارت کشمیر کی خصوصی حیثیت کو حفاظت دینے کے لئے کشمیر کو بھارت سے منسلک کرتا تھا، برآں یہ آرٹیکل کشمیر کو دیگر اکائیوں سے منفرد بناتا ہے اور اس کی وجہ سے بھارت کے قوانین اس پر لاگو نہیں ہوتے اور کشمیر ان سے مستثنیٰ رہتا ہے۔آرٹیکل370 کے تحت کشمیر کو سیاستی طور پر خصوصی حیثیت فراہم کی جاتی تھی، اس آئینی آرٹیکل کے تحت کشمیر میں دو حکومتی نظاموں کو عمل میں لایا گیا تھا جس میں ایک ترجیحی حکومت کشمیریوں کو انتخابات کے ذریعے اپنے نمائندوں کا انتخاب کرنے کی اجازت دیتی ہے جبکہ دوسری حکومت بھارتی حکومت کے نفوذ میں ہے۔ جبکہ آرٹیکل370 کے تحت کشمیر کو مختلف معاملات میں خصوصی اختیارات دیئے گئے تھے۔ جیسے کہ کشمیریوں کو صوبائی شعبے کی بجائے خصوصی شعبوں میں ملازمت کا حق دیا گیا تھا، کشمیر کے لوگوں پر بھارتی جنگی قوانین کے تحت مقدمات نہیں کئے جا سکتے تھے۔آرٹیکل 35 اے بھارتی آئین کا ایک خصوصی مضمون ہے جو کہ کشمیر کے خصوصی حالات کی حفاظت کے لئے بنایا گیا تھا اس کے تحت کشمیر کے رہائشیوں کو اپنے خصوصی حقوق کی حفاظت کے لئے بھارتی قانون سے منسلک کرنے کی اجازت دی گئی تھی، آرٹیکل35 اے کے تحت کشمیر کی حکومت کو بھارت کی حکومت کے قوانین کی مدد سے کسی بھی خصوصی حالات کو ختم کرنے کی اجازت نہیں تھی، اس آئینی مضمون کے تحت کشمیر کے رہائشیوں کے لئے خصوصی قوانین بنائے جاتے تھے جن میں ملکیت کے حقوق، ملازمت کے حقوق اور دیگر خصوصیات شامل ہیں۔ پانچ اگست2019ء میں بھارتی حکومت نے آرٹیکل370 کو ختم کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا تھا، اس کے بعد آرٹیکل35 اے بھی ختم کر دیا گیا تھا، کشمیریوں کا مینڈینٹ لئے بغیر ان کی آزادی پر جو قفل دہائیوں سے ڈالئے گئے تھے، اس پر ستم در ستم ان سے ان کی آزادی کی آئینی حیثیت کو بھی سلب کر لیا گیا جس پر پاکستان نے شدید رد عمل کا مظاہرہ کیا اور کشمیر کے حق پر قدغن لگانے والوں کے ساتھ کسی بھی قسم کا سمجھوتہ نہ کرنے کی پالیسی کے تحت سفارتی دو طرفہ تعلقات کو منقطع کر دیا تھا لیکن رواں برس جب شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کی کونسل کی میزبانی جو کہ بھارت کر رہا تھا جنوری میں پاکستان کو بھارت کی جانب سے کونسل میں مدعو کیا گیا جس کو پاکستان نے خطے میں امن کے پرچار کے طور پر قبول کیا حالانکہ اس وقت پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو پر اپوزیشن کا دبا بھی تھا جس میں انہیں کشمیر کے اسٹیٹس تبدیل کئے جانے کے بعد بھارت کے ساتھ تعلقات کی بحالی کو ”کشمیر سمجھوتہ” قرار دیا تھا، لہٰذا بلاول بھٹو یقینی طور پر اپنے سفر کے مضمرات کے بارے میں محتاط تھے، آپ قارئین کو یاد ہوگا بارہا میں اپنی تحریروں میں بھارت کے ساتھ تعلقات کی دو طرفہ بحالی کا ذکر کر چکی ہوں لیکن اس میں ایک نقطہ زیر غور ہے کہ یہ تعلقات تجارتی سطح کے زیادہ ہونے چاہئیں کیونکہ معاشی طور پر کمزور اور سیاسی انتشار و بے یقینی کی فضاء میں کوئی بھی ریاست اور خاص کر دشمن ریاست کا کوئی مفاد نہیں ہوتا کہ وہ کسی کمزور ریاست سے تعلقات کی بحالی کرے۔ عالمی سیاست کا قانون یاد رہے کہ یہاں نہ کوئی مستقل دوست ہے اور نہ ہی مستقل دشمن ہے، جو چیز عزیز ہے تو وہ صرف ملکی مفاد ہے، لہٰذا ایسے میں جب بھارت عالمی طور پر اور بالخصوص خطے میں ایک اقتصادی پاور ہائوس بن کے ابھر رہا ہے اور پاکستان کی معیشت تباہی کے دہانے پر ہے تو اسے کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات استوار کرے یا بات چیت کے عمل کو بڑھائے، مزید برآں جب بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے میزبان ہونے کی حیثیت کے باوجود بھی پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو کے ساتھ نارواں رویہ رکھا جس میں انہوں نے پاکستان پر دہشت گرد ی کے حمایتی ہونے کا الزام لگایا تو وہیں ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ پاکستان کو جاگ جانا چاہئے کیونکہ اب آرٹیکل 370 ماضی کا قصہ ہو چکا ہے، پاکستان کے ساتھ اس بد سلوکی پر بہت سے لوگوں نے اعتراض اٹھایا کہ بلاول کو اس میٹنگ میں شرکت ہی نہیں کرنی چاہئے تھی لیکن میری رائے میں پاکستان کا شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کی اس کونسل میں شرکت کا فیصلہ بلکل درست تھا۔ کیونکہ طاقت کا محور تبدیل ہونے سے جس تیزی سے طاقت ایشیائی خطے میں داخل ہورہی ہے تو ان حالات میں وقت کے تقاضے کو سمجھتے ہوئے خطے کی ریاستوں خاص طور پر چائنا اور روس کیساتھ تعلقات کی تجدید بہت اہمیت کی حامل ہے چونکہ ایس سی او میں یہ دونوں ممالک شامل ہیں لہٰذا شرکت ضروری تھی، ویسے بھی اس میں شرکت نہ کرنے سے فقط ویکیوم بننا تھا۔ مزید یہ کہ رواں برس ہی جولائی میں اس تنظیم کی ریاستوں کے سربراہاں کا اجلاس ہونا ہے جس کی میزبانی بھارت کرنے والاہے، اب ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ دراصل علاقائی اور عالمی ان تنظیموں کیساتھ اجلاس میں شرکت کا مقصد ہرگز دو طرفہ تعلقات نہیں ہوتے بلکہ یہ وسیع تناظر میں کثیرالجہتی کے ساتھ اپنے ملکی مفادات کے حصول کا ذریعہ ہوتا ہے جبکہ اس کے دوررس نتائج طویل مدت میں موثر ہوتے ہیں، البتہ لفظوں کی یہ گولہ باری دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے مابین پہلے ہی جاری ہوگئی تھی جب جے شنکر نے پاکستان کو دہشت گردی اور اسامہ بن لادن کی موجودگی پر مودر الزام ٹھہرایا تو بلاول نے مودی کو ” بوچر آف گجرات” کہتے ہوئے گجرات کے قتل عام کے سانحے کا ذکر کیا تھا جس پر بھارت میں شدید واویلا کیا گیا تھا لیکن حالیہ بی بی سی کی ڈاکومنٹری نے ساری قلعی کھول کر رکھ دی تھی کہ گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کا ماسٹرمائنڈ دراصل مودی ہی تھا، ریاستی سرپرستی میں کی جانے والی ان دہشت گردانہ کارروائیوں کی حقیقت سامنے آتے ہی مودی سرکار نے بھارت میں اس ڈاکومنٹری پر پابندی عائد کردی تھی۔ بہرحال پاکستان کو اس وقت سب سے زیادہ ضرورت معاشی میدان میں تعاون بڑھانے کی ہے جس کے لئے بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات محدود سہی لیکن اہم دوطرفہ تجارت کے دروازے کھول سکتے ہیں جو نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کی خوشحالی کے لئے بھی انتہائی فائدہ مند ثابت ہونگے، جب چائنا اور بھارت معاشی ترقی کے سفر کو بڑھا سکتے ہیں تو پھر کیوں پاکستان تجارتی روابط کو استوار نہیں کرسکتا ؟ البتہ اس کے لئے بہت محتاط پالیسیز کے ساتھ اپنا لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا جس میں درحقیقت وزیر خارجہ کا کردار بہت اہم ثابت ہوگا۔ اب دیکھنا ہوگا کہ کیسے بلاول اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو کے آغاز کی طرح شروع کئے جانے والے اپنے اس سفر کو کامیابی سے جاری رکھ سکیں گے۔

مزید دیکھیں :   کب سوچیں گے کہ فیصلہ کرلیں