کس شمار میں ہم ہیں، کس قطار میں تم ہو

اصولی طور پر تو اس صورتحال پر اردو کا وہ مشہور زمانہ مصرعہ پوری طرح منطبق ہوتا ہے کہ تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیٹر تو ‘ مگر دوسروں کے پھڈے میں ٹانگ اڑانے کی عادت کسی ایک قوم یا طبقے کی ہی محدود نہیں ہے، اور اب عالمی نشریاتی ادارے سی این این نے بھی برطانوی شہزادے چارلس کی تاجپوشی کے حوالے سے منعقد ہونے والی تقریب کے اخراجات پر سوال اٹھا دیئے ہیں حالانکہ برطانیہ نے ان اخراجات کے لئے نہ سی این این سے مدد لی ہے ‘نہ امریکہ سے خیرات و امداد کی درخواست کی ہے’ مگر وہ جو پشتو میں ایک کہاوت ہے جس کا مفہوم کچھ یوں بنتا ہے کہ تم چاہو مجھے کسی گنتی میں شمار کرو نہ کرو ‘میں تو دخل دونگا ۔ اس پر ہمیں اپنا ہی ایک پرانا شعر یاد آگیا ہے کہ
عشق و حسن سب فانی پھر غرور کیا معنی؟
کس شمارمیں ہم ہیں’ کسی قطار میں تم ہو
تاہم ایسا لگتا ہے کہ برطانوی بادشاہ کی تاجپوشی پر اٹھنے والے اخراجات پر سوال اٹھا کر سی این این نے ہمارے ملک کے ٹی وی چینلز کے مابین ریٹنگ کے لئے کی جانے والی کوششوں کی بھونڈی نقل کی ہے کیو نکہ سی این این کو کسی ریٹنگ کی دوڑ میں سے شامل ہونے کی ضرورت ہی نہیں ہے، اس کے باوجود اگر اس نے اس تقریب پر اٹھنے والے اخراجات کو ہدف تنقید بنایا ہے تو اسے ” دل پشوری”قرار دے کر حظ اٹھایا جا سکتا ہے’ سی این این کے لئے لکھے گئے ایک آرٹیکل میں شاہ چارلس کی تاجپوشی کی اہمیت اور ضرورت پر سوال اٹھایا گیا ‘ صحافی، فلم میکر اور ڈاکٹر احمد تویچ نے سی این این کے لئے لکھے گئے آرٹیکل میں کہا کہ بادشاہ بننا تو ویسے بھی چارلس کا پیدائشی حق تھا، ملکہ الزبتھ کے انتقال کے آٹھ ماہ بعد چارلس کو یہ مہنگی تقریب کرنی ہی تھی تو خرچہ تو کم کیا جا سکتا تھا ۔ تاج پوشی
کی قانونی حیثیت کوئی نہیں، اس فرسودہ روایت کو بیشتر یورپی ملک پہلے ہی ترک کر چکے ہیں۔ ناروے 1908 ، ڈنمارک1840 سے اورسپین1555 سے تاجپوشی کی رسم ترک کر چکا ہے ۔ جہاں ایک طرف بیلجیئم میں ایسے کسی تاج کا وجود ہی نہیں جس کی بنیاد پر تاجپوشی کی جا سکے ۔ دوسری طرف برطانوی تاج غیر منقسم ہندوستان سے لوٹے گئے 100قیراط سے زیادہ کے ہیرے کوہ نور سمیت قتل و غارت گری کے ذریعے لوٹے متعدد شاہی جواہرات سے مزین ہے ۔ امریکی نشریاتی ادارہ سروے نکال کر لے آیا ہے کہ برطانیہ کے جو ان لوگوں میں سے 70 فیصد افراد کو شاہی خاندان سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ‘ ایسے میں تاج پوشی کی رسم پر ساڑھے بارہ کروڑ ڈالرز یعنی 36ارب روپے جھونک دیئے گئے ‘ وہ بھی اس وقت جب برطانیہ شدید ترین مہنگائی کی زد میں ہے سی این این کا سروے اپنی جگہ مگر ذرا کوئی شہزادہ چارلس کے دل سے بھی تو پوچھے کہ بے چارے نے ان لمحات کے آنے تک کتنی راتیں صبحیں کر دیں اور کتنے صبحوں کو رات کر دیا تھا ‘ بہت کم لوگوں کو اس بات کا علم ہوگا کہ ایک بارملکہ الزبتھ نے انہیں تاج و تخت کے وارثوںکی فہرست میں پیچھے دھکیل کر اپنے پوتے کو اپنے بعد بادشاہ بنانے کا فیصلہ کر دیاتھا ‘ تاہم بعد میں شاہی خاندان کے اندر حالات کچھ ایسے بنے کہ
موجودہ بادشاہ کی بطور وارث تخت حیثیت بحال کر دی تھی ‘ اور اب جبکہ چارلس خود عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں کسی بھی وقت ”بلاوا” آسکتا ہے تو بادشاہ کی حیثیت سے اس تاجپوشی کی رسم کے لئے کیا کیا دعائیں نہ مانگی ہوں گی اس نے یا پھر کم از کم نئی ملکہ کمیلا پارکرنے ہی کوئی”چلہ” کاٹا ہو گا کہ ان کے شوہر جلد از جلد(جلد از جلد؟) بادشاہ اور وہ خود ملکہ بن جائیں ‘ یہ الگ بات ہے کہ ملکہ الزبتھ اپنی آخری سانس تک تخت برطانیہ چھوڑنے کے لئے تیار نہیں تھیں ‘ حالانکہ تخت و تاج ان کے لئے ” کھیل ” نہیں تھے اور وہ چاہتیں تو اپنی زندگی ہی میں تاج اپنے بیٹے کے سر پر سجا کر کسی چرچ میں زندگی کے آخری ایام یاد خدا میں گزار سکتی تھیں ‘ تاہم یہ کم بخت اقتدار چیزی ہی ایسی ہے جس سے چھٹکارا پانے کے لئے بندہ تیار نہیں ہوتا۔ اب سی این این کا سروے کچھ بھی کہے اور برطانیہ کی نوجوان نسل کے 70 فیصد افراد خواہ تاجپوشی کی رسم سے کوئی دلچسپی رکھیں یا نہ رکھیں مگر انگریزوں کے بارے میں یہ بات تو طے ہے کہ وہ ایک قدامت پرست قوم ہے جو ماضی کی روایات کو گلے لگائے زندہ رہتی ہے ‘ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ دنیا میں بادشاہوں کا دور تقریباً ختم ہونے کے باوجود اور برطانیہ کوجمہوریت کی ”ماں” کا درجہ حاصل ہونے کے باوصف اصولی طور پر بادشاہت سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہئے ‘ مگر اس کے باوجود برطانیہ نے بادشاہت کو صرف ایک روایت کے طور پر نہ صرف زندہ رکھا ہوا ہے بلکہ وہ اپنے بادشاہ ( یا ملکہ) کی دل سے عزت کرتے ہیں ‘ اور ان کے خلاف کوئی بات سننے کو تیارنہیں ہیں ‘ حالانکہ بادشاہ یا ملکہ صرف آئینی کردار ادا کرنے تک محدود ہوتے ہیں جو سال میں چند مواقع پر دستوری سرگرمیوں کے حوالے سے پارلیمنٹ کے پاس کئے ہوئے بلوں پر دستخط کرنے تک محدود ہیں ‘ دوسری بات یہ ہے کہ برطانیہ کے عوام کو تاجپوشی کی رسم دیکھے تقریباً 70 سال ہوگئے ہیں جب ملکہ الزبتھ 1952ء میں اپنے نانا جارج پنجم کے انتقال کے بعد تاج برطانیہ کی وارث بنی تھی ‘ اس لئے لگ بھگ 70 سال تک وہ برطانیہ کی آئینی حکمرانی کے مزے لوٹتی رہیں اور اپنی زندگی میں اپنی اولاد میں سے کسی کو بھی حکمرانی کا خواب یکھنے تک کی اجازت نہیں دی ‘ اگرچہ عمر کے اس حصے میں آکر تاج و تخت سنبھالنے سے بادشاہ چارلس کے کتنے ارمان نکل سکتے ہیں ‘ یا کمیلا پارکر کے ملکہ بننے سے اس کی کونسی امیدیں بر آسکتی ہیں ماسوائے اس کے کہ نہ صرف بادشاہ چارلس کے تاج میں متحدہ ہندوستان سے انگلستان منتقل کیا جانے والا مشہور زمانہ ہیرا کوہ نور جڑا ہوا ہے اور ملکہ کمیلا بھی ان سے پیچھے نہیں رہیں یعنی ان کے گلے میں جو ہار پہنایا گیا وہ بھی لاہور کے شاہی خزانے سے حاصل کردہ ہیروں سے مزین تھا ‘ یہ ہیرے 1849ء تک لاہور کے خزانے کا حصہ تھے ‘ بہرحال چونکہ اس دور میں جب برصغیر پر مکمل دسترس سے پہلے دنیا بھر میں بحری قزاقوں کا راج ہوا کرتا تھا ‘ جنہیں اپنے اپنے ملک کے ان ادوار کے حکمرانوں کی پشت پناہی حاصل ہوتی تھی کیونکہ لوٹے گئے خزانوں میں وہ متعلقہ ممالک کے حکمرانوں کو باقاعدہ حصہ دیاکرتے تھے ‘ اور برصغیر میں ولنندیزیوں (ڈچ) فرانسیسیوں اور انگریزوں کے مابین طویل جنگیں ہوئیں جن میں فیصلہ کن کامیابی انگریزوں کو حاصل ہوئی اس لئے بعد کے تقریباً سو سال وہ بلا شرکت غیرے برصغیر پرحکمران رہے اور ” سونے کی چڑیا” کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے رہے ۔
خبر اخبار میں لکھی ہوئی تھی
مرے ہمسائے میں ڈاکہ پڑا ہے

مزید دیکھیں :   آگے آگے دیکھئے ہو تا ہے کیا ؟