چینی وزیر خارجہ کا بھارت کو کرارا جواب

چینی وزیر خارجہ کن گینگ نے گوا میں شنگھائی کانفرنس سے واپسی پر پاکستان کا دوروزہ دورہ کیا اور افغانستان سے متعلق سہ فریقی اجلاس میں شرکت کی ۔اس اجلاس میں افغانستان کے وزیر خارجہ امیر محمد متقی نے بھی شرکت کی ہے ۔چینی وزیر خارجہ نے بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چین دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کاوشوں کو سراہتا ہے اور اس کی فتح پر پختہ یقین رکھتا ہے۔اس موقع پر بلاول بھٹو زرداری نے پاکستان کی طرف چین کی حمایت کا اعادہ کیا اور کشمیر پر اصولی موقف اپنانے پر چین کا شکریہ ادا کیا ۔چینی وزیر خارجہ نے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی قربانیوں کو اس وقت خراج تحسین پیش کیا جب ایک روز قبل گوا کی شنگھائی کانفرنس میں بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے اپنے ابتدائی خطاب میں ہی پاکستان کے خلاف ایک چارج شیٹ پیش کی تھی اور پاکستان کو بھارت میں دہشت گردی کا ذمہ دار قرار دیا تھا اور دہشت گردی کے مقابلے کو شنگھائی تنظیم کے لئے ایک چیلنج کہا تھا۔چینی وزیرخارجہ بھی اس محفل میں موجود تھے اور واپسی پر انہوںنے بھارت کے موقف کے قطعی برعکس دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے موقف اور قربانیوں کی تعریف کی ۔دو روز میں چینی اور بھارتی وزرائے خارجہ کے اس متضاد موقف کا تعلق دونوں ملکوں کے مفادات اور پالیسیوں میں اُبھرنے والے گہرے تضاد سے ہے ۔چین پاکستان کا دوست ہے اور اسے دہشت گردی کا شکار سمجھتا ہے اور ہر بین الاقوامی اور علاقائی فورم پر پاکستان کا دفاع کرتا چلا آرہا ہے اس کے برعکس بھارت پاکستان سے اکثر حالتِ جنگ میں رہتا اور ان دنوں تو دونوں کے درمیان واجبی علیک سلیک بھی باقی نہیں ۔با امر مجبور ی بھارتی وزیر خارجہ نے پاکستانی وزیر خارجہ کو شنگھائی کانفرنس کا دعوت نامہ بھیجا مگر ناگواری ان کے لب ولہجے اور باڈی
لینگوئج سے عیاں تھی ۔بھارتی وزیر خارجہ نے سی پیک کو ہدف تنقید بنایا اور یہ بالواسطہ طور پر چین پر ہی تنقید تھی ۔سی پیک حقیقت میں چین کا منصوبہ ہے اور وہی اس منصوبے پر بھاری سرمایہ کاری بھی کر رہا ہے اور اس منصوبے کا سب سے بڑا بینیفشری بھی ہے۔بلاول نے اس منصوبے کا دفاع کیا اور اسے علاقائی ترقی کے لئے اہم قرار دیا ۔چینی وزیرخارجہ نے بھارتی وزیر خارجہ کے جواب کے لئے پاکستان کی سرزمین کا انتخاب کیا اور بھارت کو مسکت جواب دیا ۔ بھارت کی بے چینی اورچینی وزیر خارجہ کے بیان سے یہ حقیقت واضح ہورہی ہے کہ چین اور پاکستان کے تعلقات میں مزید گرم جوشی اور حالیہ مہینوں میں پاکستان کی طرف چین کے مقابلے میں مغرب کی طرف جھکائو کا تاثر کم ہونے لگا ہے ۔سال بھر پہلے کی بات ہے جب چینی وزیر خارجہ نے ایران میں بہت معنی خیز جملہ کہا تھا کہ ایران کی خوبی یہ ہے کہ یہ ایک ٹیلی فون کال پر اپنی پالیسی تبدیلی نہیں کر تا ۔یہ وہ وقت تھا جب پاکستان امریکہ کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لئے مذاکرات کر رہا تھا اور ان مذاکرات کی کامیابی کے امکانات بھی واضح ہو رہے تھے ۔سی پیک پر کام کی رفتار سست پڑ چکی تھی اور اس کے منصوبوں اور باشندوں کے خلاف دہشت گردی کے حملے تیز ہو رہے تھے ۔پاکستان کے لئے بھی ایک مشکل دوراہا تھا ۔یوکرین کی جنگ نے اس مخمصے کو بڑھا دیا تھا ۔اب یوں لگتا ہے چین اور پاکستان کی دوستی کے اوپر منڈلاتے غیر یقینی اور
تذبذب اور مایوسی کے بادل چھٹنے لگے ہیں اور دونوں کے تعلقات اپنی روایتی ڈگر پر پوری روانی کے ساتھ چل پڑے ہیں۔بھارت کی تلملاہٹ اس کا واضح ثبوت ہے اور پاکستان کے خلاف بھارتی وزیر خارجہ کی چارج شیٹ کا سارا اثر ایک بیان سے ختم کرنا اس تاثر کو مزید گہرا کررہا ہے ۔
۔کئی برس سے پاکستان اور بھارت کے تعلقات منجمد ہو کر رہ گئے ہیں اور چوری چھپے ان تعلقات کو بحال کرنے کی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں ۔باجوہ ڈاکٹرائن کے تحت ان تعلقات کو بحال کرنے کی کوششیں بھی بارآور ثابت نہیں ہو سکیں اور اب تک دونوں ملکوں کے تعلقات کا گلیشئر پوری طرح موجود ہے ۔بھارت چونکہ کشمیر پر کسی قسم کی پیش رفت کرنے کو تیار نہیں بلکہ کشمیر میں جبر وستم کا ماحول پورے عروج پر ہے اس لئے پاکستان کے لئے کشمیر پر کسی رعائت کے بغیر بھارت سے اعلانیہ بغل گیر ہونا ممکن تو ہے مگر شاید اس کے سیاسی اور غیر سیاسی فیصلہ سازوں کی ساکھ کے لئے اچھا نہیں ۔حکومت پہلے ہی غیر مقبول ہے اور اپوزیشن کی مقبولیت آسمان کو چُھور رہی ہے ان حالات میں پاکستان کی حکومت کوئی بڑا فیصلہ لے کر بھارت کے ساتھ تعلقات کو بحال کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہی ۔دوسری طرف نریندر مودی ہوا کے گھوڑے پر سوار ہے اور وہ ایک مخصوص ذہنیت کے ساتھ پاکستان کو نظر انداز کررہا ہے ۔جس میں جہاں سیاسی اور انتخابی ضرورتوں کا عمل دخل ہے وہیں مودی کی انتہاپسندانہ سوچ کا حصہ بھی ہے ۔مودی اب اپنے عوام کو یہ تاثر دے رہا ہے کہ پاکستان خود اپنی حماقتوں اور پالیسیوں کے گرداب میں پھنس چکا ہے اور اب بھارت کو پاکستان کو اہمیت دینے کی ضرورت نہیں ۔بھارت کا مقابلہ چین سے
ہے اور یہی حقیقی خطرہ بھارت کو درپیش ہے ۔اس ذہنیت کے ساتھ مودی اس وقت پاکستان کے ساتھ براہ راست بات چیت کا خطرہ مول نہیں لے سکتا ۔پاکستان نے وزیر خارجہ کو بھارت بھیج کر ایک کڑوا گھونٹ پی لیا ہے اور اپوزیشن چاہے تو اس کارڈ کو حکومت کے خلاف عوامی سطح پر اچھے انداز سے کھیل سکتی ہے مگر شنگھائی تعاون تنظیم چونکہ چین اور روس کی بالادستی میں قائم تنظیم ہے اس لئے پاکستان کی اپوزیشن بلاول کے دورہ ٔ بھارت پر زیادہ معترض نہیںہوئی اور اسے ایک سیاسی اور انتخابی کارڈ کے طور پر استعمال کرنے سے احتراز برتتی رہی ۔ بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ رو ارکھنے جانے والے سلوک پر عمران خان نے بھارتی وزیر خارجہ کی ہی سرزنش کی اور اسے آداب میزبانی کے خلاف قرار دیا ۔یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستانی عوام مجموعی طورروس اور چین کے ساتھ تعلقات کو اہمیت دے رہے ہیں اور بھارت سے اختلافات کے باوجود پاکستان نے ایک ایسی تنظیم کے اجلاس میں شرکت کے لئے بھارت جانے کا راستہ چنا جس پر چین کی چھاپ نمایاں ہے بلکہ جس کا نام ہی چین کے شہر شنگھائی سے تعلق کی کہانی سنا رہا ہے ۔پاکستان نے موجود ہ حالات میں ایک مشکل اور تلخ فیصلہ کیا ۔حکومت نے خود کو قربانی کا بکر ا بھی بنالیا۔ اب شنگھائی تعاون تنظیم کے ارکان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بھارت کو اس بات پر آمادہ کریں کہ وہ کشمیر پر جو روستم کی پالیسی میں تبدیلی لائے اور کشمیر میں ایک ایسے سیاسی عمل کی ابتداکرے جس سے خطے کی تین ایٹمی طاقتوں کے درمیان کشیدگی میں کمی آئے اور کشمیر میں آبادی اور تشخص کی تبدیلی کے بادل بھی چھٹ جائیں۔چین تو بھارت کے ساتھ کئی مسائل میں اُلجھا ہوا ہے مگر معاہدہ تاشقند کرانے والا روس اس سے بہتر پوزیشن میں ہے کہ وہ بھارت کو کسی معقولیت کے راستے پر لاکر مغربی ملکوں کے لئے سپیس کو مزید کم کرے۔

مزید پڑھیں:  ایران کے خلاف طاغوتی قوتوں کا ایکا