علاقائی تعاون میں مزید پیشرفت

چین اور افغانستان کے وزرائے خارجہ کا ایک ہی موقع پر دروہ پاکستان اور اہم شخصیات سے ملاقاتوں سے دورے کی اہمیت اور اس کے خطے پر اثرات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے اخباری اطلاعات کے مطابق دونوں وزرائے خارجہ نے گزشتہ روز آرمی چیف سے ملاقات کی۔آرمی چیف نے علاقائی اوربین الاقوامی معاملات پرپاکستان کے لئے چین کی غیرمتزلزل حمایت کو سراہا۔چینی وزیرخارجہ کن گینگ نے برادر ممالک کے درمیان دیرینہ اسٹریٹجک تعلقات کی اہمیت کو اجاگر کیا۔علاوہ ازیں آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے قائم مقام افغان وزیرخارجہ امیرخان متقی نے بھی ملاقات کی جس میں علاقائی سلامتی، بارڈر مینجمنٹ اور باہمی دلچسپی کے امورپرتبادلہ خیال کیا گیا۔امیر خان متقی کا کہنا تھا کہ علاقائی استحکام اور خوشحالی کے فروغ کے لئے پاکستان کے ساتھ مل کرکام کرنا چاہتے ہیں۔دریں اثناء افغان عبوری وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی نے وزارت خارجہ کا دورہ کیا، اس دوران وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے اپنے افغان ہم منصب کا خیر مقدم کیا۔دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ فریقین نے دوطرفہ امن و سلامتی، تجارت، ربط سمیت باہمی تشویش کے اہم امور پر تبادلہ خیال کیا، اس کے علاوہ دوطرفہ سطح پر متواتر اور عملی رابطے جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔ترجمان دفتر خارجہ نے بتایا ہے کہ دونوں ممالک نے انسداد دہشتگردی اور دوطرفہ تعاون میں وسعت دینے پر بھی زور دیا، اس کے علاوہ راہداری تجارت میں حائل رکاوٹیں دورے کرنے، اقتصادی ترقی پر اتفاق ہوا۔اطلاعات میں کہا گیا ہے کہ اس دورے کے موقع پر اہم موضوع افغانستان میں امن کے استحکام کا تھا افغانستان میں امن کے حوالے سے جہاں پاکستان کا کردار اہمیت کا حامل رہا ہے وہاں امن کا عمل کو بڑھانے کے لئے خطہ کے ممالک چین ‘ روس ‘ ایران اور ترکی کا کردار بھی نمایاں اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے خصوصاً چین اپنے بڑے معاشی کردار ارو علاقائی تعاون کے حوالے سے ہمیشہ افغانستان میں امن کے حوالے سے سنجیدہ کردار کا مظاہرہ کرتا آیا ہے اب بھی وہ پاکستان اور دیگر شراکت داروں کے ساتھ مل کر اسی مقصد کے لئے سرگرم عمل ہے علاقائی ممالک کے باہم تعاون سے علاقائی امن و تجارت کے فروغ کے ساتھ افغانستان میں معدنی وسائل کو بروئے کار لا کر نہ صرف ا فغانستان کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے قابل بنایا جا سکتا ہے بلکہ علاقائی استحکام اور تجارت کے فروغ کے لئے بھی اس کی اہمیت مسلمہ ہے ۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے حوالے سے پاکستان پر عالمی دبائو کسی سے پوشیدہ نہیں جبکہ پاک افغان تعلقات کے بھی اس پر اثرات کو سمجھنا مشکل نہیں یہی وجہ ہے کہ چین نے ماضی و حال کے ہر کڑے وقت میں پاکستان کا ساتھ دیادیکھا جائے تو دہشت گردی کی جنگ سمیت افغانستان کے معاملات اور خصوصاً معاشی مسائل اور دبائو کے حوالے سے امریکہ کا رویہ پاکستان سے معاندانہ رہا ہے اور اس کا جھکائو بھارت کی طرف رہا ہے جبکہ چین کی علاقائی سیاست میں پاکستان ہی اولین ترجیح ہے ۔ بنا بریں چینی وزیر خارجہ کا دورہ اور پاکستان چین اقتصادی راہداری کے معاملات اور افغانستان میں استحکام کے لئے اقدامات اس دورے کا مرکزی نکتہ قرار پاتے ہیں ۔ علاوہ ازیں سہ فریقی مذاکرات میں افغانستان میں امن و استحکام کے لئے ممکنہ اقدام پر اتفاق کے ساتھ پاک چین افغانستان کا دہشت گردی کی جڑ یں اکھاڑنے پر اتفاق ہوا تھا اس حوالے سے زیادہ ذمہ داری بہرحال افغانستان پر عائد ہوتی ہے ان تمام عوامل کے ساتھ ساتھ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اقتصادی و معاشی حوالے سے پاکستان مشکل حالات سے گزر رہا ہے اس ضمن میں بھی پاک چین تجارت کا فروغ اور افغانستان سے تجارتی تعلقات کی بطور خاص بہتری اہمیت کے حامل امور ہیں خوش آئند امر یہ ہے کہ دونوں ممالک سے اس شعبے میں تعاون و بہتری کے حوالے سے پیش رفت ہو رہی ہے ۔ پاکستان کے وزیر تجارت اور اس کے افغان ہم منصب کے درمیان حال ہی میں اس حوالے سے حوصلہ افزاء ملاقات ہوئی ہے جس میں تجارت ‘ کسٹمز اور ٹرانسپورٹ کے متعلقہ حکام کے درمیان کسٹم تعاون ‘ سرحدی انتظامات میں بہتری دو طرفہ تجارت ٹیرف میں کمی ادویات سازی اور گوشت کی پیداوار سمیت مختلف اہم معاملات پر مثبت بات چیت اور مشاورت ہوئی ہے اجلاس کا بنیادی مقصد رکاوٹوں کو دور کرکے حالات کو ساز گار بنانا تھا اقتصادی تعلقات کے فروغ سے پاکستان کا تجارتی خسارہ کم اور زرمبادلہ کی کمی کے مسئلے پر قابو پانے میں مدد ملے گی دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو مربوط کرنے سے سمگلنگ کی صورتحال پر بھی قابو پانے میں مدد گار ثابت ہو گا ۔ پاک چین افغانستان روس ایران تجارتی و اقتصادی تعاون خطے کے لئے ضروری اور اہمیت کا حامل معاملہ ہے ۔ باہمی تجارت کو فروغ دینے سے پاکستان کو تجارتی خسارے کے مسئلے اور سستے ایندھن کے حصول اور تجارت کے فروغ جیسے مطلوبہ فوائد حاصل ہوں گے اور خطے کے ممالک من حیث المجموع اس کے ثمرات سے مستفید ہوں گے ان تمام حالات کے لئے ضروری امر خطے کا امن ہے جس کے حوالے سے تینوں ممالک کے درمیان ایک مرتبہ پھر مشاورت صلاح و مشورہ اور اتفاق رائے ہوا ہے جس کے نتیجے میں خطے میں پائیدار امن اور علاقائی تعاون مزید اضافہ کے نتیجے میں استحکام آئے گا۔جس کے اثرات سے پورا خطہ مستفید ہو گا۔

مزید پڑھیں:  ڈیٹا چوری اور نادرا؟