ڈر یہ ہے کہ ۔۔۔ ؟

بادی النظر میں پنجاب اسمبلی کے انتخابات14مئی کو ہوتے دکھائی نہیں د یتے گو کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے گزشتہ روز کہا ہے کہ آئین کے تحت90دنوں میں الیکشن کرانا ہمارا فرض ہے مناسب ہوتا وہ آئین کی اس شق کا حوالہ بھی دے دیتے جس میں یہ اختیار الیکشن کمیشن کی بجائے سپریم کورٹ کو منتقل ہوجاتا ہو نیز انہیں یہ وضاحت بھی کردینی چاہیے تھی کہ90روز میں الیکشن کی آئینی پابندی صرف پنجاب اسمبلی کے لئے کیوں خیبر پختونخوا کے لئے کیوں نہیں؟ چیف جسٹس کے گزشتہ روز ایک تقریب میں خطاب پر قانون دانوں کا ایک طبقہ یہ کہتا بھی دکھائی دیتا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب حکومت اور عدلیہ کے درمیان تنائو کی صورت صاف ظاہر ہے بہتر ہوتا وہ سیاسی تقریر سے اجتناب کرتے۔ بالفرض سیاسی تقریر ضروری تھی تو پھر اٹھائے گئے سوالات کا جواب بھی دینا چاہیے تھا۔ جہاں تک چیف جسٹس کے اس موقف کا تعلق ہے کہ فیصلہ چیلنج نہ ہو تو حتمی ہوتا ہے اس پر حکومتی موقف بڑا واضح ہے کہ ہم چار تین کے تناسب سے دیئے گئے فیصلے کو تسلیم کرتے ہیں تین دو والے کو نہیں۔ جب حکومت تین دو کے فیصلے کو مان ہی نہیں رہی تو پھر وہ اسے چیلنج کیوں کرتی خصوصا اس صورت میں جب اس فیصلے پر قومی اسمبلی کی قرارداد بھی موجود ہو۔ 90دن میں الیکشن والے کیس کی گزشتہ سماعت کے دوران کمرہ عدالت میں چیف جسٹس اور وکلا میں جو مکالمہ ہوا اس سے یہ امید بندھی تھی کہ اولا پارلیمان کی قرارداد کی روشنی میں اصلاح احوال کے لئے کوئی قدم اٹھایا جائے گا ثانیا یہ کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کا کوئی بنچ یا معزز جج یہ تاثر نہیں دے گا کہ آئین سے زیادہ اہمیت عدالتی فیصلے کی ہے۔ عدالتی فیصلے آئین و قانون کے تحت ہی ہوتے ہیں ان فیصلوں کے خلاف اپیل بھی آئینی حق ہے لیکن 90دن میں الیکشن والے معاملے پر دیئے گئے فیصلے میں بذات خود جن آئینی نکات اور سوالات کو نظرانداز کیا گیا اس کے بعد یہ توقع کرنا درست نہیں ہوگا کہ عدالتی حکم پر من و عن عمل کیا جائے۔ اب جبکہ سپریم کورٹ کے اپنے فیصلے کے مطابق پنجاب اسمبلی کے انتخابات میں ہفتہ بھر کا وقت رہ گیا ہے تو عمومی طور پر یہ پوچھا جارہا ہے کہ 14 مئی کو پنجاب اسمبلی کے الیکشن ہوں گے؟ بظاہر ایسی کوئی صورتحال دکھائی نہیں دیتی۔ وزارت خزانہ نے پنجاب میں الیکشن کے لئے فنڈز کا اجرا نہیں کیا۔ بیلٹ پیپر کی طباعت کا عمل ہی شروع نہیں ہوا پھر کیسے انتخابات منعقد ہوں گے یہ بذات خود سوال ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اگر اعلی عدالت روز اول دو اہم نکات زیربحث لانے کی اجازت دے دیتی تو عین ممکن تھا جو حالات آج ہیں یہ نہ ہوتے۔ اولا یہ کہ کیا کسی پیشگی سیاسی معاہدے کے تحت کوئی غیرمتعلقہ شخص اس شرط پر کسی کو وزیراعلی بنوادے کہ وہ وزیراعلی بن کر اس شخص سے ہوئے معاہدے کی روشنی میں اسمبلی تحلیل کردے گا تو کیا اس صورت میں اسمبلی تحلیل کئے جانے کے اس عمل کو آئینی تحفظ حاصل ہوگا یا یہ ایک بدنیتی پر مبنی عمل قرار پائے گا ؟ ثانیا ملک میں جاری مردم شماری کا عمل ہے۔ یہ مردم شماری پچھلی دو مردم شماریوں کے متنازعہ ہوجانے پر 2018 میں تحریک انصاف کی حکومت کے دوران مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کے تحت ہورہی ہے۔ مشترکہ مفادات کونسل میں فیڈریشن اور صوبوں کے درمیان طے پایا کہ آئندہ انتخابات نئی مردم شماری و نئی حلقہ بندیوں پر ہوں گے۔ حالیہ سیاسی اور عدالتی بحران میں جس طرح ان دو سوالات ان میں سے ایک تو خالصتا ایک آئینی ادارے مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کی بنیاد پر ہے، نظرانداز ہوئے اس سے منفی تاثر ابھرا۔ فوری طور پر یہ سوال بھی اٹھا کہ فیڈریشن کی اکائیوں کی نمائندگی کے حوالے سے عدم توازن کا شکار اداروں کو ایسے فیصلے دینے چاہئیں جن سے یکجہتی متاثر ہوتی ہو؟ امر واقعہ یہ ہے کہ بعض حالیہ فیصلوں سے اس لئے بھی رجوع کیا جانا ضروری ہے کہ اسی عرصہ میں سامنے آنے والے کچھ سکینڈلز کی وجہ سے یہ عمومی تاثر قائم ہوا کہ فیصلے آئین و قانون سے زیادہ پسندوناپسند پر ہیں۔ دوسری جانب قومی اسمبلی کی وہ مختلف قراردادیں ہیں جنہیں آئینی تحفظ حاصل ہے مثلا پنجاب میں انتخابات کے لئے فنڈ جاری نہ کرنے کا فیصلہ اور پھر متنازعہ ہوجانے والے فیصلے کے حوالے سے قومی اسمبلی کی قرارداد۔ اب ہونا یہ چاہیے تھا کہ ملک کی بڑی عدالت اس بحران کے خاتمے کے لئے سینئر ترین ججز پر مشتمل بنچ بنانے کی طرف بڑھتی یا پھر فل کورٹ کے قیام کی طرف۔ افسوس کہ دونوں باتیں نظرانداز ہوئیں اور مختلف دنوں میں ہونے والی عدالتی سماعتوں میں دیئے گئے بعض ریمارکس اور جوابی طور پر قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ہونے والی کچھ تقاریر نے الگ ہی سماں باندھ دیا۔ قانونی حلقوں اور عوام کے لئے یہ ارشاد حیرانی کا باعث ہے کہ اگر سیاسی جماعتیں ایک دن انتخابات پر اتفاق کرلیتی ہیں تو درمیانی راستہ نکال سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آئینی پابندیوں میں درمیانی راستہ نکالنے کا دستوری حق پارلیمنٹ کو ہے یا سپریم کورٹ کو؟ عدالت کیسے اور کس آئینی شق کے تحت 90دن کے معاملے میں درمیانی راستہ نکال سکتی ہے؟ ہم مکرر اس امر کی جانب توجہ دلانا ضروری سمجھتے ہیں کہ عدلیہ اور پارلیمان کے مقابل آجانے سے پیدا ہوئے بحران کا سنجیدگی سے حل نکالنے کی سعی کی جانی چاہیے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ اس آئینی بحران کا حل تلاش کرنے کے لئے سپریم کورٹ کے سینئر ترین پانچ یا سات ججز پر مشتمل بنچ بنادیا جائے یا پھر فل کورٹ کے قیام کی طرف بڑھا جائے اس کے بغیر اصلاح احوال کی کوئی صورت بنتی دکھائی نہیں دیتی۔ دوسری جانب متعدد وفاقی وزرا بالخصوص وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ۔ وفاقی وزیر احسن اقبال اور خواجہ محمد آصف نے اگلے روز اس حوالے سے جن خیالات کا اظہار کیا وہ یقینا حکومت کا ہی موقف ہے۔ وزیر داخلہ کہتے ہیں کہ الیکشن 14مئی کو نہیں اپنے وقت پر ہوں گے۔ اعلی عدلیہ کے بعض فیصلوں سے عدم استحکام پیدا ہونے کا خطرہ ہے جبکہ وفاقی وزیر احسن اقبال کا کہنا ہے کہ عدلیہ کے احترام کو حکومت کی کمزوری سمجھ کر عدالت دو قدم آگے بڑھ گئی۔ دونوں وزرا کے مذکورہ خیالات سے اس امر کا اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں کہ حکومت اور عدلیہ فی الوقت کہاں کھڑے ہیں اور یہ کہ اگر دونوں ایک ایک قدم پیچھے نہ ہٹے تو نتیجہ کیا ہوگا۔ اسی اثنا میں سپریم کورٹ کے ایک معزز جج سے منسوب یہ خبر بھی سامنے آئی کہ حکومت فل کورٹ اس لئے بنوانا چاہتی ہے کہ ججز کے اندرونی اختلافات کو اچھالا جاسکے۔ یہ خبر درست ہے تو پھر اس رائے کو تقویت ملے گی کہ سیاسی مقدمات میں ہوئے بعض حالیہ فیصلے آئین و قانون سے زیادہ خواہشات اور ترجیحات کے مرہون منت ہیں۔ ان حالات میں یہی عرض کیا جاسکتا ہے کہ اگر اصلاح احوال میں مزید تاخیر برتی گئی تو اس بحران کی کوکھ سے انہونی جنم لے سکتی ہے۔ ایسا ہوا تو اس کے ذمہ دار تمام فریق ہوں گے۔ اس امر پر دو آرا ہرگز نہیں کہ نظام حکومت آئین و قانون کے مطابق چلنا چاہیے یہ کہ آئینی و حکومت ماتحت اداروں سبھی کو اس امر کا بطور خاص خیال رکھنا ہوگا کہ دستور سے انحراف ہونا ہی کوئی ادارہ پارلیمان کے اختیار سنبھال کر دستور نویسی شروع کردے۔ پاکستان کو اس وقت جن مسائل کا سامنا ہے ان سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔ آج کا سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ حکومت اور دیگر سبھی دستور میں طے شدہ حدود میں رہ کر فرائض سرانجام دیں نیز یہ کہ خواہشات و ترجیحات کو دستور پر مقدم ہرگز نہ سمجھا جائے۔

مزید پڑھیں:  بھارت کا مستقبل امریکہ کی نظر میں