حسن مہ گرچہ بہ ہنگام اچھا ہے

پاکستان کے سندیافتہ صادق وامین سیاسی رہنما ء عمر ان خان نیا زی نے بالآخر شہباز شریف سے بحیثیت وزیراعظم کچھ سوال پو چھ ہی ڈالے ، سوال پو چھنا باعث حیر ت نہیں ہواکر تا مگر مگر اصول پر ست فرد کا اٹل رویہ ہو تا ہے کہ وہ کبھی اپنی بات سے پھیر انہیںکر تا چنا نچہ سابق وزیر اعظم کا یہ اصولی فیصلہ رہا ہے کہ وہ چوروں کے ساتھ نہیں مل بیٹھیں گے اسی طر ح وہ شہباز حکومت کو نہیں مانتے کہ یہ امپورٹڈ حکومت ہے ، بہر حال وہ مذاکرات کی میز پر بھی آبراجما ن ہوئے اور اب تو انھوں نے وزیر اعظم سے ایک ٹیوٹر پیغام کے ذریعے استفسار ات کیے ہیں کہ ان کودوبار قاتلا نہ حملہ کا نشانہ بنایاگیا کیا ان کو بطور پاکستانی قاتلا نہ حملے کا ذمہ داروں کو نا مزد کر نے کا حق ہے ؟ مو صوف نے یہ بھی پوچھا کہ انھیں مقدمے کے اندراج کے آئینی وقانونی حق سے محروم کیو ں کیا گیا ، ساتھ ہی مو صوف نے یہ بھی پابندی عائد کی کہ ان کے سوالا ت کا سچ پر مبنی جوابات دیں تو سب سے زیا دہ ہی طاقتور شخص اور اس کے شریک کا ر ساتھیو ں کا سراغ ملے گا جو سب قانون سے بالا تر ہے ، عمر ان خان کا اپنے پیغام میں یہ بھی کہنا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ باضابطہ اعلا ن کر یں کہ پاکستان مین جنگل ہی کا قانون رائج ہے جہا ں جس کی لا ٹھی اس کی بھینس کا اصول کا ر فرما ہے ، لاٹھی بھینس والی کہاوت کی خوب رہی پاکستان میں سیا ست دانوںکے ساتھ کیا حسن سلوک رہا ہے یہ موقع اسے بیان کر نے کا نہیں ہے تاہم ان لو گو ں کو اس کہا وت کوبرتنے سے پہلے اپنے اندر جھانک لینا چاہیے کہ لاٹھی بھینس کی کہا وت کی کھٹاس ان کی تخت نشینی کے دور میں کس قدر محسو س کی جا تی تھی ، سوال عمر ان خان نیا زی نے وزیر اعظم شہباز شریف سے پو چھے جو ابات ان کو ان کے سابق پڑوس کی طرف سے آگئے ، لیکن اس سے پہلے وفاقی وزیر اطلا عات محترمہ مریم اورنگ زیب کی کہی پر نظر ڈال لی جائے موصوفہ نے سوالا ت کا بڑا کھٹا ساجواب دے ڈالا فرماتی ہیں کہ حق صرف آئین اور قانو ن کے ذریعے ہی ہو تا ہے ہر شہر ی اپنے حقوق کے تحفظ کاپورا قانونی حق رکھتا ہے چنا نچہ ہر شہر ی تھانے اور عدالت جا کر ثبوت کے ساتھ اپنے حقوق کا طالب ہوتا ہے ، مریم اورنگ زیب نے ایک جھٹکے دار جو اب یو ں بھی دیا کہ 35پنکچر ، دس ارب ، سائفر اور امریکی سازش جیسے الزام لگائے لیکن کوئی ثبوت پیش نہیں کیا ، عدالت کیو ں نہیں جا تے اگر ثبوت ہیں ْ؟ جھوٹے الزام لگانا ، ، بہتان بازی کسی کا نہ قانونی نہ آئینی حق ہے علا وہ ازیں محترمہ نے نہ جانے کیا کیا گُن گِنو ا دیئے تاہم انھو ں نے یہ بات بھی کہہ ڈالی کہ جب تم پر قاتلا نہ حملہ ہو تو کے پی کے ، پنجا ب میں تمہاری حکومت اور وزیر اعلیٰ تھا کیا وہ سازش میں شریک تھے تمہا ر ے کہ انھو ں نے ایف آئی آر کیو ں نہیںکا ٹی ، محترمہ ترجمان وفاقی حکومت کی نظروں سے شاید پی ٹی آئی کے صدر پرویز الہی کا تازہ بیان نہیں گزرا جس میں انھو ں نے شفاف بیان کیا ہے کہ ایف آئی آر کا ٹنے سے انھو ں نے روک دیا ہے ، اب عمر ان خان کو چاہیے کہ اپنی پارٹی کے صدر کے خلا ف معاملہ پارٹی میں اٹھا ئیں ،اصل بندہ تو خود پیش ہو گیا ہے ، جہاں تک مریم اورنگ زیب کا یہ کہنا ہے کہ وہ
عدالت کیو ں نہیں جا تے ، تو ان کو آگا ہ ہونا چاہیے کہ کپتان نے دو مرتبہ دو عدالت عالیہ میں اپنی پیشی کے موقع پر ان کے مقد مات کی سماعت کر نے والے بینچ کو آگاہ کیا کہ ان پر دو مرتبہ قاتلا نہ حملہ ہو چکا ہے اور ان کی جا ن کو اب بھی خد شہ ہے ، لیکن عدلیہ نے ان کے اس بیان کا کو ئی نو ٹس نہیں لیا ، جبکہ عدالت کے سامنے کوئی فر د یہ بیا ن کر ے کہ اس کی جا ن کو خطرہ ہے تو وہ عدالت میں ثبوت بھی پیش کر تا ہے ، عدالت نو ٹس بھی لیتی ہے ، عمران خان نے دونو ں مرتبہ بناء کسی ثبوت پیش کئے بیا ن دیا ، بہر حال عمر ان خان جب سے سیا ست میں معروف ہوئے ہیں ان کی مو شگا فیاں بھی طور سینا کے رنگ میں رنگی ہو تی ہیں تاہم ٹیوٹر پیغام سے سیا سی بوچھال تو آیا ساتھ ہی جوابات کی بوچھاڑ بھی شروع ہو گئی ہر طرف سے کھٹائی میں لترھے ہوئے جوابات کا سامنا کر نا پڑرہا ہے عمر ان خان کی طرف سے ایسی سیاسی گگلی کھیلنے پر عموما ًماضی کے ایک سیا ست دان یا د آجا تے ہیں، غلام محمد لو نڈ خوڑ کی سیا ست بھی موشگافیوں سے پر ہو ا کرتی تھی عمر ان خان کی طر ح ان کو بھی یہ سبق پڑ ھا دیا تھا کہ سیا ست میں مقبول رہنے کاایک ہی گر ہے کہ آئے روز کوئی نا کوئی سیا سی بو چھال پیدا کر و پھر تماشا رد عمل کے طورپرشروع ہو جائے گا اس طرح پاکستان کے مقبول ترین لیڈر بنے رہو گے مگر ایک گر ُ یہ بھی تھاکہ وہ جہا ں کثرت سے پریس کانفرنس کر تے وہا ں وہ پر یس ریلز بھی جا ری کر تے رہتے ایک دو دن تو صبر سے جائزہ لیتے کہ کیا رد عمل آیا جب کوئی رد عمل نہیںآتا تو وہ خود کسی فرضی نا م سے اپنے خلا ف ردعمل جاری کر دیتے ، صحافیوں سے
ان کی ان بن رہتی تھی ،صحافی اس معاملے ان کے ساتھ ہا تھ کر جاتے پھر وہ بھی دندنا تے اخبار کے دفتر پہنچ جا یا کرتے تھے ، عمر ان خان تو غلا م محمد لو نڈ خوڑ کے مقابلے میں خوش بخت ہیں کہ ان کو ایسے جتن نہیں کر نا پڑ تے بہرحال اتنا ہے کہ ایسے موشگافیو ں سے ان کی سیاسی زندگی کی سانسیںسبک رواں رہتی ہیں ، سانسوںکے سبک روانی پریا د آیا کہ جو امتحانی پر چہ انھو ں نے شہباز شریف کی طر ف بڑھا یا ہے اس میں مخالف کیمپ کی طرف سے کھٹیلے بیا ن تو آرہے ہیں مگر آئی ایس پی آر نے تو چپٹ دار ایسا جو اب بھیجا ہے کہ اس کا ذائقہ نہ صر ف کیسلا بلکہ کڑوا ہٹ و تلخی میں لت پت ہے کہ نہ نگلا جائے اور نہ تھو کا جا ئے ہے ۔آئی ایس پی آر کی جانب سے جو کھٹامیٹھا پیار بھرا تحفہ دیاگیا ہے وہ میڈیا کے طاق میں آب وتا ب سے سج گیا ہے اس پر تبصرہ کی ضرورت نہیں کیو ںکہ یہ ذمہ داری کسی تیسرے کی نہیں بنتی کہ وہ اظہا ر رائے کرے یہ حق صرف اورصرف ان کو جو جا م جمشید پیش کیا گیا ہے اس میں پڑی مے پر جھک کر دیکھیں کہ مے کس رنگ میں رنگی ہوئی ہے چنا نچہ پھر ان کو شہباز شریف یا کسی اور سے استفسارات کی ضرورت باقی نہیں رہے گئی جام جمشید کے بھرے پیالے میں سب رنگ عیاں و بیا ں تیرتے ملیں گے ، اسی لیے تو مرزاغالب برسوںپہلے کہہ بیٹھے ہیں کہ
” ساغرجم سے مرا جا م سفال اچھا ہے ”
آخر میں انسانی حقوق کی سابق وزیر شیرین مزاری سے کلی اتفا ق ہے کہ انسانی حقوق کی تنظمیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیو ںکا نوٹس لے شفافیت یہ ہو تی ہے کہ موجودہ حکومت کے ساتھ ساتھ اپنے دور اقتدار کا دامن بھی پیش کردیا جائے کہ کہیں سے وہ بھی توچھید دار نہیں ۔

مزید پڑھیں:  بے بس حکومتیں بیچارے عوام