قانونی راستہ اختیار کرنے کی ضرورت

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی جانب سے بغیر کسی ثبوت کے ایک حاضر سروس سینئر فوجی افسر پر انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور بے بنیاد الزام عائد کرنا مناسب امر نہ تھا جو من گھڑت، بدنیتی پر مبنی، افسوسناک، قابل مذمت اور ناقابل قبول ہے۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر)سے جاری بیان کے مطابق گزشتہ ایک سال سے یہ ایک مستقل طریقہ بن گیا ہے جس میں فوجی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہلکاروں کو سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے اشتعال انگیز اور سنسنی خیز پروپیگنڈے کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہم متعلقہ سیاسی رہنما سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ قانونی راستہ اختیار کریں اور جھوٹے الزامات لگانا بند کریں۔تحریک انصاف کے قائد کی جانب سے اس طرح کے الزامات معمول کی بات بن گئی ہے وہ ہر ادارے اور اشخاص کو نشانہ بناتے آئے ہیں مگر قانونی راستہ اختیار کرکے وہ کسی الزام کو منطقی انجام تک پہنچانے کی طرف کبھی بھی متوجہ نہیںہوتے عسکری قیادت پر بالعموم اور اسٹیبلشمنٹ پر بالخصوص الزام تراشی جملہ سیاسی جماعتوں اور قائدین کے معمولات کا حصہ بن چکا ہے اسٹیبلشمنٹ کو سیاسی مداخلت اور ان کے کردار کے حوالے سے تطہیری پرچی دینے کی تو ہر گز گجائش نہیں سیاست اور حکومتوں میں مداخلت کوئی پوشیدہ بات نہیں بلکہ حقیقت ہے قبل ازیں موجودہ حکمران جماعت کے قائدین اور اہم رہنما بھی جس قسم کی الزام تراشی کرتے آئے ہیں سوشل میڈیا پر ایک مرتبہ پھر ان کی بھر مار ہے جب مخالفت کے مرکزی نکتے پر سبھی کا اتفاق ہے تو کیا امر مانع ہے کہ اس کے باوجود سیاستدان اس کے خلاف متحد نہیں ہوتے اور یکے بعد دیگرے ساتھی بن کر کھیلنے میں ہی کیوں عافیت جانتے ہیں جب تک اس کردار و عمل کے مظاہرے ہوتے رہیں گے اس وقت تک اس طرح کی صورتحال بھی رہے گی ا لبتہ اگر اسٹیبلشمنٹ ماضی کی غلطیاں نہ دہرائے اور حقیقی معنوں میں خود کو غیر جانبدار ثابت کرے تو آہستہ آہستہ ان کے حوالے سے خیالات میں تبدیلی واقع ہونا شروع ہوجائے گی جہاں اسٹیبلشمنٹ کو دامن بچا کر چلنے کی ضرورت ہے وہاں الزام تراشی کرنے والوں کو بھی باقاعدہ طریقہ کار کے تحت قانونی کارروائی اور مقدمہ درج کرنے کا طریقہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے ایف آئی آر کے عدم ا ندراج پر عدالت جانے کا راستہ موجود ہے لیکن جب صورتحال یہ ہو کہ سرے سے قانونی طریقہ کار ہی اختیار نہ ہو رہا ہو تو صرف ا لزام تراشی ہی کا راستہ بچتا ہے تحریک انصاف کے قائد کو چاہئے کہ وہ اپنے دستخطوں سے پولیس کو تحریری درخواست دے مقدمہ درج نہ ہونے پر 22.A کے تحت عدالت میں پولیس کی شکایت کرے اگر یہ دونوں راستہ وہ اختیار نہیں کرتے یانہیں کر سکتے تو زیادہ بہتر یہی ہو گاکہ پھر خاموشی اختیار کرے اور الزام تراشی سے باز آجائے۔

مزید پڑھیں:  کور کمانڈرز کانفرنس کے اہم فیصلے