آٹا بحران سے صورتحال کشیدہ ہونے کا خطرہ

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے پنجاب سے خیبر پختونخوا کو گندم اورآٹاکی ترسیل پر پابندی کے حوالے سے پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ کولکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ خیبر پختونخوا گندم اور آٹا کی کمی کا شکار صوبہ ہے صوبے کی گندم اورآٹا کی ضرورت 14ہزار میٹرک ٹن یومیہ اور51لاکھ میٹرک ٹن سالانہ ہے۔ محکمہ خوراک پنجاب نے خیبرپختونخوا کے داخلی راستوں پر چیک پوسٹیں قائم کی ہیں جس سے گندم اور آٹا کی نقل و حرکت محدود ہوگئی ہے جس سے خیبر پختونخوا کی مقامی مارکیٹ پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اور مقامی سطح پرگندم اورآٹا کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیاہے اس صورتحال میں کھلی منڈی میں گندم اور آٹا کی قلت چند دنوں میں آنے والی ہے محکمہ خوراک پنجاب کے یہ اقدامات آرٹیکل 151 کی شق3کی ذیلی شق اے کے خلاف ہیں۔ آئین پاکستان کایہ آرٹیکل صوبائی حکومتوں کو پابندیوں سے باز رکھتا ہے اورآزاد بین الصوبائی تجارت کی اجازت دیتا ہے۔پنجاب سے آٹا کی ترسیل پر پابندی کی وجہ سے خیبر پختونخوا کے مختلف آٹا منڈیوں میںآٹا مسلسل مہنگا ہو رہا ہے آٹا ڈیلرز کے مطابق گندم کے بحران اور ملز کو سپلائی میں کمی آٹے کی مہنگائی کی بنیادی وجہ ہے گزشتہ ایک عرصے سے پنجاب حکومت کی جانب سے بھی آٹا کی ترسیل پر پابندی عائدجاری ہے حالیہ مہینوں کے دوران آٹا کی قیمتوں میں تیسری چوتھی مرتبہ اضافہ کیا گیا ہے۔پنجاب سے گندم اور آٹا کے حصول پر پابندی مسلسل درد سر ہے جسے کوئی بھی حکومت حل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتی مشکل امر یہ ہے کہ ایک طرف جہاں گندم کی ریکارڈ فصل مارکیٹ میں آنے کو ہے وہاں دوسری جانب خیبر پختونخوا کو اس سے کوئی فائدہ نہیں مل رہا بلکہ عین فصل کی آمد کے موقع پر صوبے میں آٹا بحران اور طلب و رسد کا توازن بگڑنے پر قیمتوں میں اضافہ سامنے آیا ہے اس کا اب ایک ہی حل یہ ہو سکتا ہے کہ خیبر پختونخوا کی حکومت کو یا تو پنجاب سے گندم کی خریداری اور صوبے میں گندم ذخیرہ کرنے کا مزید موقع دیا جائے یا پھر صوبہ اپنی ضرورت کے مطابق گندم درآمد کرے آخر کب تک صوبے کے عوام ایک ہی ملک میں رہتے ہوئے بھی محرومیوں اور ناانصافیوں کا شکار رہیں گیاور کب آئین کے مطابق بین الصوبائی تجارت کی آزادی ملے گی اور صوبہ اپنی ضرورت کے مطابق کھلی منڈی سے بھی گندم کی خریداری کر سکے گا۔اس صورتحال میں عوام کا اشتعال اور امن وامان کا مسئلہ ہی پیدا ہونے کا خطرہ نہیں بلکہ صوبے کے عوام کا پنجاب کی طرف مارچ اور چیک پوسٹیں عوامی قوت سے ختم کرنے کا بھی خطرہ ہے جس کی نوبت نہیں آنے دینا چاہئے اورجلد سے جلد مسئلہ حل کیا جائے وزیر اعظم کو اس مسئلے کا نوٹس لینا چاہئے جبکہ صدر مملکت کو بھی سیاسی معاملات کی طرح اس سنگین عوامی مسئلے کی طرف بھی متوجہ ہونے کی ذمہ داری میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔

مزید پڑھیں:  بیرونی سرمایہ کاری ۔ مثبت پیشرفت