صرف مشورہ نہیں تعاون بھی چاہئے

قائم مقام افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے اپنے دورہ پاکستان کے موقع پر افغان حکومت کا یہ موقف دہرایا ہے کہ کالعدم تنظیم اور اسلام آباد درپیش مسائل کے حل کے لیے مذاکرات کریں۔ ہم حکومت پاکستان اور ٹی ٹی پی سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ مل بیٹھیں اور اپنے طور پر ان مسائل کا حل تلاش کریں۔ان کا کہنا تھا کہ ہمیں امید ہے کہ یہ مسئلہ حل ہو جائے گاگزشتہ ماہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے دوران نتیجہ اخذ کیاگیا تھا کہ پاکستان میں دہشت گردی کی حالیہ لہر کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے خلاف سوچی سمجھی پالیسی کی عدم موجودگی اور اس حوالے سے نرم گوشہ رکھنے کا نتیجہ ہے۔حالیہ مہینوں میں پاکستان دہشت گردی کی لہر سے شدید متاثر ہوا ہے، زیادہ تر حملے خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ہوئے، دہشت گردی کے حملوں میں یہ اضافہ کالعدم ٹی ٹی پی اور حکومت پاکستان کے درمیان کابل کی میزبانی میں ہونے والے مذاکرات کے خاتمے کے بعد دیکھا گیا جس کے نتیجے میں گزشتہ سال نومبر میں جنگ بندی ختم ہوگئی اور کالعدم گروپ نے اپنے عسکریت پسندوں کو ملک بھر میں حملوں کا حکم دے دیاکالعدم ٹی ٹی پی پاکستان میں حملوں کے لیے افغان سرزمین استعمال کر رہی ہے لیکن افغانستان کی انتظامیہ اس کی تردید کرتی ہے ۔پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات اور معاملت کی جید علمائے کرام کی سطح پر بڑے وفد کی صورت میں کابل جا کر بھی سعی کی جا چکی ہے ۔ علمائے کرام کے وفد کو ٹی ٹی پی کی جانب سے یقین دہانی بھی کرائی گئی اور فساد فی الارض اور بے گناہ انسانوں کے قتل کے واقعات سے اجتناب پر بھی اتفاق کیا گیا مذاکراتی عمل کا آغاز بھی ہوا مگر ان کے مطالبات مسئلے کے حل کی طرف بڑھنے کی بجائے الٹا پاکستان پر اپنے مطالبات کو تسلیم کرنے کی فرمائشیں سامنے آئیں جس میں قابل ذکر قبائلی اضلاع اور اصلاحات کا خاتمہ کرکے سابق فاٹا کی بحالی تھی علاوہ ازیں بھی نظام کی تبدیلی کے حوالے سے ان کے مطالبات تھے یوں وہ پاکستان کے سننے کی بجائے اپنی منوانے پر اڑے رہے ایک دہشت گرد گروپ سے اس قیمت پر مذاکرات اور اتفاق کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا افغان وزیر خارجہ کو دوبارہ مذاکرات شروع کرنے کا مشورہ دینے سے قبل گزشتہ مذاکرات کی ناکامی اور ٹی ٹی پی کی سخت شرائط بارے بھی بات کرنے کی ضرورت تھی اور اس امر کی وضاحت کی ضرورت تھی کہ آیا افغان عبوری حکومت ٹی ٹی پی کو نامناسب شرائط سے دستبرار ہونے پر آمادہ کر کے راہ ہموار کرنے کی اعانت کا فرض ادا کیا ہے اگرایسا نہیں اور حالات جوں کے توں ہی ہیں تو پھر مذاکرات کا مشورہ اور اسے قبول کرنا یا اس پر آمادگی لاحاصل اور کار عبث ہو گا گزشتہ مذاکرات کے ماحول میں تبدیلی نہ آئی تو ایک اور کوشش کا نتیجہ ناکامی کے سوا کچھ نہ ہو گا نوشتہ دیوار کے باوجود بھی اگر افغان وزیر خارجہ کا مشورہ مان لیا جائے تو وہ اس بات کی کیا ضمانت دیں گے کہ مذاکرات نتیجہ خیز ہوسکتے ہیں ہمار ے تئیں افغان حکومت کو اس حوالے سے مساعی کی ذمہ داریاں پوری کرنے کے بعد اس طرح کا مشورہ دیناچاہئے تھا سفارتکاری اور مذاکرات کے ذریعے اور پرامن رہنے کی ضمانت پر غیر مسلح واپسی اور عام معافی کی گنجائش تو ہو سکتی ہے لیکن ان کی مرضی کے فیصلے مسلط نہیں ہو سکتے افغان وزیر خارجہ ایک جانب ان عناصر کی افغانستان کی سرزمین میں موجودگی سے اتفاق نہیں کرتے اس حقیقت سے انکار کی گجائش نہیں کہ افغانستان میں طالبان حکومت قیام کے بعد پاکستان میں دہشت گردی ‘ ٹارگٹ کلنگ اور تشدد کے واقعات میں بڑا اضافہ ہوا ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ٹی ٹی پی افغان سرزمین استعمال نہیں کر رہی ہے تو پھر ان کی سکونت کہاں ہے اور جن طالبان کی گزشتہ حکومت میں واپسی ہوئی تھی وہ کہاں چلے گئے پاکستان میں سکیورٹی فورسز نے چپہ چپہ چھان مارا اور اب وہ وزیرستان کے دور دراز جنگلوں تک کی نگرانی اور تطہیر کے عمل میں مصروف ہیں دیگر سرحدی علاقوں میں بھی نگرانی کا مربوط عمل موجود ہے طالبان حکومت کاکردار ہی ان عناصر کی ان کی سرزمین پر موجودگی سے وابستہ ہے اگر بالفرض محال یہ عناصر وہاں موجود نہیں تو پھر امیر خان متقی کو اسے پاکستان کا داخلی مسئلہ قرار دینا چاہئے تھا۔ مذاکرات کے مشورے اور مذاکرات کے ذریعے اس سنگین مسئلے کا حل نکل آئے تو یہ بہتر صورت ہو گی لیکن ماضی کے تجربات کی روشنی میں ان عناصر کے خلاف جب تک ٹھوس بنیادوں پر کارروائی نہیں ہوتی ہے اور افغان سرزمین پر ان کو ٹھکانے رکھنے کی سہولت حاصل رہے گی نہ تو مذاکرات کامیاب ہوسکیں گے اور نہ ہی پاکستان میں امن و استحکام کے خطرات میں کمی آئے گی۔

مزید پڑھیں:  جگر پیوند کاری اور بون میرو ٹرانسپلانٹ سنٹرز کا قیام