پاکستان کی تاریخ کے آئینے میں پی ٹی آئی کا یہ نعرہ اور دعویٰ ہی غلط تھا کہ ”عمران خان ہماری ریڈ لائن ہے” ۔یہ نعرہ تو اسی وقت اپنی معنویت کھو چکا تھا جب گجرات کے قریب عمران خان کے جسم میں چار گولیاں اُتار دی گئی تھیں او رگولیاں چلانے والے نے اپنے طور پر ان کاکام تمام کردیا تھا اور ریکارڈ ہونے والی وڈیو کے وقت بھی اسے یہی اندازہ تھا کہ وہ اپنا ہدف حاصل کرچکا ہے۔اس حملے سے کئی دن پہلے سے عمران خان کے سیاسی حریفوں نے ذومعنی انداز میں کہنا شروع کیا تھا کہ عمران خان تمھار ا وقت ختم ہے ۔اس حملے سے دو دن پہلے میڈیا میں یہ خبریں آنے لگی تھیں کہ گجرات میں عمران خان کے لانگ مارچ کے ساتھ کچھ ہونے والا ہے ۔ چند دن بعد یہ صرف” کچھ” ہی نہیں بلکہ بہت کچھ ثابت ہوا۔عمران خان اگر ریڈ لائن تھا تو یہ لائن اسی وقت کراس ہو گئی تھی اس کے بعد عمران خان کی گرفتاری تو کوئی مشکل معاملہ ہی نہیں تھا ۔قاتلانہ حملے کے بعد عمران خان کے حامی جب ان کی گرفتاری کو ریڈ لائن قرار دے کر ریاست کو دھمکاتے تھے تو یہ بہت مضحکہ خیز سی صورت حال ہوتی تھی ۔آخر کار موقع پا کر ریاست نے یہ ریڈ لائن توڑدی اور عمران خان ایک بڑے سکینڈل میں نیب کی تحقیقات میں عدم تعاون کے بعد گرفتار کر لئے گئے اس کیس میں مزید اہم گرفتاریاں بھی متوقع ہیں بہرحال اگر کہانی میں یہ موڑ نہ آتا توکسی اور بہانے سے انہیں گرفتار کر لیا جاتا۔عمران خان ذہنی او رعملی طور پراس صورت حال کے لئے تیار ہو چکے تھے او رشاید وہ بھی سال بھر سے جاری روز کی اس کِل کِل سے تنگ آچکے تھے اور گرفتاری سے ایک روز قبل جاری ہونے والے پیغام میں وہ ذہنی طور پر اس کے لئے تیار نظر آرہے تھے ۔اسی لئے اس بار پی ٹی آئی نے اپنے کارکنوں کو ہائی کورٹ پہنچنے کی کال نہیں دی ۔عمران خان گرفتار ہوگئے تو اس کے بعد ملک میں وہ فیصلہ کن ہنگامہ آرائی شروع ہوئی جس کا خدشہ محسو س کیا جا رہا تھا ۔عمران خان کا مسئلہ یہ ہوا کہ وہ دو ریڈ لائنز عبور کربیٹھے ان میں اندورنی کھیل کی تو دوسری بڑے کھیل یعنی عالمی سرخ لکیر تھی ۔ ریڈ لائنز کو عبور کر بیٹھے جسے عبو رکرنے کا پاکستان میں کوئی ریکارڈ ہے نہ رواج ۔جسے عبور کرنے کا مرحلہ درپیش ہو تو وقت کے مقبول لیڈر بھی اس وادی ٔ پرخطر میں قدم رکھنے کی بجائے اپنا بوریا بستر اُٹھائے بیرونی دنیا کے عافیت کدوں کا رخ کرتے ہیں ۔ عمران خان اشرافیہ کے حامل پاکستان میں سیاست اور اقتدار کا کلچر تبدیلی کرنے کی کوشش کی اور ریاست کے وسائل اور مفاد کو عام آدمی سے جوڑنے کی کوشش کی ۔ماضی کے رنگ ڈھنگ تو یہ بتاتے ہیں کہ یہ ملک صرف بالادست طبقے کے لئے قائم ہوا ہے اور اس کی ساری مراعات ساری سہولیات صرف اسی بالادست مخلوق کے لئے وقف ہیں۔یہ طبقہ ذہنی اور عملی طور پر مغرب کا اسیر ہے ۔دوسری ریڈ لائن عالمی تھی ۔پاکستان کے گرد وپیش میں بھارت عالمی مدار سے باہر نکلے تو کچھ خاص فرق نہیں پڑتا کیونکہ وہ برسوں سرد جنگ میں سوویت یونین کا اتحادی رہا ہے ۔افغانستان بھی طالبان کے ہاتھوں میں جا کر اس مدار سے باہر نکل جائے تو بھی گوار ا ہے مگر پاکستان سے عالمی طاقتوں کے مدار اورحصار سے نکلنے کی لہریں مرتعش ہوتی دکھائی دیں یہ قطعی گوار انہیں ۔یہ ایٹم
بم کی وجہ سے نہیں بلکہ اس سے بھی پرانی کہانی ہے ۔جب کہوٹہ کی بجائے پاکستان ابھی تک اپنے قیام کے ابتدائی دنوں میں کانٹے میں پھنسا تھا اس وقت بھی ملک پاکستان کا اس مدار سے نکلنا ایک ڈراونا خواب تھا ۔نجانے اس عمل میں ایسا کیا خوف پنہاں ہے کہ عالمی طاقتیں اس کے لئے اپنے اصول اور میعار تک تج دینے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔عمران خان کے محاروں اور طرز حکومت اور لب ولہجے میں ساتویں اور آٹھویں دہائی کے مشرق وسطیٰ اور افریقی اور لاطینی امریکہ کے ملکوں کے حکمرانوں کی جھلک نظر آنے لگے تو خطرے کی گھنٹی بجنا تو لازمی ہے۔”ہرگز نہیں ” کہتے ہوئے انہوں نے عالمی قوتوں کے مدار سے نکلنے کا خطرہ اور خوف اپنے ساتھ وابستہ کر دیا تھا ۔ عمران سیریز کے سکرپٹ میں میں یہ درج تھا کہ اقتدار سے برطرف ہوتے ہی یورپ کی فضائوں میں آسائش کی زندگی گزارنے والا کھلاڑی اس جھٹکے کی تاب نہ لا سکے گا اورگرفتاری ،بدنامی اور آڈیو وڈیو کے خوف سے اپنے بچوں کے پاس لندن سدھار جائے گا۔یہاں سے اندازے کی ایک ایسی غلطی ہوگئی کہ جس کا خمیازہ آج ملک بھگت رہا ہے ۔بظاہر تو ایسے اندازوں کی غلطی کا احتمال نہیں ہوتا مگر منصوبہ سازوں نے بدلے ہوئے وقت کا سامنا کرنے والے شخص کی نفسیات کا درست اندازہ نہیں لگایا ۔جس سے حالات کی ڈور اُلجھتی چلی گئی ۔عمران خان نے فیصلوں اختیار مانگتے ہوئے خود کو مشکلات کے بھنور میں دھکیل دیا ۔یہ طاقت کے مراکز کی حدود میں مداخلت کی ریڈ لائن ہے ۔اس جادونگری میں قدم رکھنے کی شوق میں کئی کردار تاریخ کی بھولی بسری یاد بن کر رہ جاتے ہیں ۔ایسے خطرناک شوق فرمانے والوں
کی کہانیوں کے عنوان مختلف ہیں مگر ان کا انجام ایک ہے ۔طاقتور سے طاقت چھیننے یا شراکت چاہنے کی خواہش دنیا میں ہرجگہ خطرات سے بھرپور رہی ہے مگر پاکستان میں تو یہ سراسر موت کے کنویں میں موٹر سائیکل کے کرتب جیسی ہے ۔عمران خان بھی طاقت کے سانڈ کو سرخ رومال دکھا بیٹھے اور سپین کے میلے میںسانڈ کو سرخ رومال دکھانے والے کھلاڑی کو اندازہ ہوتاہے کہ وہ سینگوں کے نشانے پر آکر اور پائوں کی زد میں آکر جان سے بھی گزر سکتا ہے مگر شوق کا کوئی مول نہیں ہوتا اور خطرات کے کھلاڑی یہ خطرہ مول لیتے ہیں ۔اسی طرح پاکستان میں طاقت کی ریڈ لائن عبو رکرنے والے بھی اس بات سے آگاہ ہوتے ہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہو سکتا ہے؟ کوئی احمق ہی ہوگا جسے اس قدر خطرناک کھیل میں صرف اپنی جیت کا یقین ہو۔عمران خان بھی بقائمی ہوش وحواس اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ ایک صفحے سے چلتے چلتے وہ اب جس مقام پر پہنچے ہیں اس کا انجام کیا ہو سکتا ہے۔ مگر پاکستان کے لوگوں کو یہ یقین ہو چلا ہے کہ عمران خان ایک دیانت دار اور ایماندار انسان ہے ۔اسی لئے ریاست نے عوام کے اس یقین کو شک میں بدلنے کے لئے چند برس میں سیکڑوں بیانیے میدان میں متعارف کرائے اور میڈیا کے ذریعے انہیں مقبول بنانے کی کوشش بھی مگر ہر بیانیہ شام سے پہلے کسی تندور پر رکھے اخبار کی طرح روٹیاں لپیٹنے کے کام آرہا تھا۔پاکستان کے عوام نے اس یقین اور اعتماد کا تعلق بہت کم سیاست دانوں سے رکھا ہے ۔اسی یقین اور اعتماد نے عوام میں ان کی مقبولیت کو بلندیوں تک پہنچادیا ۔یہ مقبولیت ان کی مشکل بن گئی کیونکہ اسی مقبولیت سے منہ موڑنے اور نظریں چرانے کے لئے حکومت نے انتخابات سے ہی دامن چھڑانا شروع کیا اور اس طرح پاکستان کا سیاسی بحران مزید سنگین او رگہرا ہوتا چلا گیا ۔
