ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں

دنیا بھر میں جانوروں کے خلاف کسی بھی قسم کا تشدد روا رکھنے کی سوچ کے حوالے شعور بیدار ہو رہا ہے اور بہت سے ممالک میں چڑیا گھر بند کرنے کے لئے آوازیں اٹھ رہی ہیں’ دیکھا جائے تو چڑیا گھروں کا قیام ہی بے زبان جانوروں پرند چرند کو محسوس کرنے کے لئے اورانسانوںکو خوش کرنے کے لئے تھا ، انسان جبلی طور پر اپنے سے کمزور مخلوق کو مطیع کرنے کے لئے ہمیشہ ہی سرگرم رہا ہے’ قوموں اور قبیلوں کے مابین ابتدائے آفرینش سے جاری جنگوں کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو جدید دور تک آتے آتے اس نے دہشت اور بربریت کی لازوال داستانیں رقم کیں، معاشروں میں کچھ ٹھہرائو آیا تو پھر اس نے جنگلی جانوروں کے استحصال کی کوششیں شروع کر دیں اور اہل مغرب نے اس سے بھی حظ اٹھانے کے مواقع ڈھونڈتے ہوئے بڑے بڑے شہروں میں چڑیا گھر جنہیں انگریزی میں zoo کہا جاتا ہے’ بنا کر وہاں دنیا بھر سے نایاب جانور اور پرندے وغیرہ لا کر تفریح کا سامان کیا، یہ سلسلہ بھی تقریباً ایک صدی سے جاری ہے’ بر صغیر میں بھی انگریزوں نے کئی بڑے شہروں میں وسیع و قطعات اراضی پرچڑیا گھر قائم کر کے ان جانوروں اور پرندوں وغیرہ کو ان کے اپنے قدرتی ماحول کے مطابق حتی الامکان سہولیات فراہم کرنے کی کوشش کی’ ان جانوروں اور نایاب پرندوں وغیرہ کو دنیا کے مختلف بڑے جنگلوں سے لانے کی کہانی بہت عرصہ پہلے بالی وڈ میں بنائی جانے والی ایک فلم”سفاری پارک” کے ذریعے سامنے آئی کہ یہ ان جانوروں وغیرہ کو کس طرح پکڑ کرقید کرتے ہیں اور پھر انہیں وہاں سے بر آمد کر کے گویا سمگلنگ کے ذریعے ان سے پیسہ کماتے ہیں’ بعد میں سفاری فلم کی بنیاد پر ٹی وی چینلز پر کئی کئی اقساط کی سیریز بھی سامنے آئیں۔ اس حوالے سے بر صغیر میں قدیم زمانے سے بھالو یعنی ریچھ اور بندر کو ناچنے اورکرتب دکھانے کے لئے مقامی افراد انہیں گھیر کر لانے اور ان کے ذریعے روزی روٹی کا بندوبست کرنے کے لئے سرگرم رہے ہیں’ بلکہ اب بھی اس حوالے سے کئی خاندان اسی کام میں جتے ہوئے ہیں’ تاہم جانوروں کے اس طرح کے استعمال کو اب عالمی سطح پر اچھے نظر سے نہیں دیکھا جاتا ، اس حوالے سے انسداد بے رحمی حیوانات جیسے محکمے اور ادارے بھی اپنا کام کرتے رہتے ہیں ، یہ باتیں یاد آنے کی وجہ سپریم کورٹ کا گزشتہ روز کا ایک فیصلہ ہے جس کے تحت پشاور کے چڑیا گھر کے لئے افریقی ہاتھی منگوانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیاگیا ، سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے فاضل جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں کنونشن کے تحت ناسازگار ماحول کی وجہ سے ہاتھی درآمد کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ، خبر کے مطابق پہلے چڑیا گھر کے لئے دو ہاتھی امپورٹ کرنے کی اجازت اس سے پہلے ہائی کورٹ نے بھی مستردکی تھی، اور اب سپریم کورٹ نے بھی درخواست کو مسترد کر دیا ہے، یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ پشاور چڑیا گھر کے قیام کے بعد چڑیا گھر انتظامیہ کی جانب سے مختلف جانوروں کے ساتھ اکثر و بیشتر ”غیر انسانی” سلوک کی داستانیں سامنے آتی رہی ہیں’ خصوصاً گوشت کھانے والے جانوروں (شیر، چیتے وغیرہ) کو ان کی ضرورت کے مطابق گوشت فراہم نہ کرنے ، جبکہ دوسرے جانوروں کے ساتھ بھی ”جانوروں سے بدتر سلوک”کے قصے میڈیا پرسامنے آتے رہے ہیں’ گزشتہ موسم گرما میں چڑیا گھر کے جانوروں کے ساتھ ہوئے سلوک پر عوامی سطح پر احتجاج بھی سامنے آتا رہا ہے، مگر حسب معمول ان خبروں پر ”مٹی پائو” کی پالیسی سے احتجاجی آوازیں دبانے کی کوششیں کی جاتی تھیں، اب جبکہ کچھ جانوروں کے مرنے اور دوسرے جانوروں کے ساتھ بدسلوکی کی خبریں سامنے آئیں تو عالمی کنونشن کے مطابق جانوروں کے ساتھ نامناسب سلوک پر مزید ہاتھیوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کی اجازت نہ دے کر عدالت عظمیٰ نے یقینا درست فیصلہ کیا ہے۔ اس پر مولانا الطاف حسین حالی کے الفاظ میں یوں تبصرہ کیا جا سکتا ہے کہ
بہت جی خوش ہوا حالی سے مل کر
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں
مغرب میں اگر چہ جانوروں کے ساتھ بدسلوکی کے حوالے سے اب آوازیں اٹھنا شروع ہوئی ہیں جبکہ اسلام نے آج سے کئی صدیاں پہلے جانوروں کے ساتھ بدسلوکی کی سختی سے ممانعت کر رکھی ہے بلکہ بدسلوکی کے خلاف اسلامی تعلیمات صرف جانوروں تک ہی محدود نہیں ہیں، اور فتح مکہ کے لئے جب ہادی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں اسلامی لشکر روانہ ہو رہا تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واضح ہدایات دیں کہ جانوروں اور درختوں کو بھی کوئی گزند نہ پہنچے ۔(اس کا اسلام آباد میں درختوں اور پودوں کو آگ لگانے کے پس منظر میں دیکھنے نہ دیکھنے کی صوابدید آپ کی اپنی ہے) اسی طرح خانہ کعبہ میں پناہ لینے والوں اور جنگ پر آمادہ نہ ہونے والوں ، بزرگوں، خواتین اوربچوں سے کوئی تعرض نہ رکھنے کی ہدایات بھی دنیا کی جنگوں کے حوالے سے ایک منفرد پیغام تھا ‘ اب آپ خود سوچئے کہ جس مذہب نے بے زبان جانوروں کے ساتھ حسن سلوک کی ہدایات دی ہوں ‘ اس مذہب میں انسانوں کے ساتھ حسن سلوک کے کیا معیار ہوں گے یہی وجہ ہے کہ مہذب دنیا نے جانوروں کے ساتھ سلوک کے حوالے سے ”انسداد بے رحمی حیوانات” جیسے محکمے قائم کرکے جانوروں پر ہونے والے بے جا تشدد کی روک تھام کرنے کا جو رویہ اختیار کیا ہے اس کی ابتداء بھی اسلام نے کی ہے ‘ اب یہ الگ بات ہے کہ اہل مغرب نے صرف کتوں اور بلیوں کو زیادہ اہمیت دے رکھی ہے ‘ اور دنیا بھرمیں ان دو پالتو جانوروں کے خوراک پر بطور خاص تحقیق بھی کی جاتی ہے اور ان کے لئے مختلف بسکٹ اور ڈبہ بند خوراک تیار کرنے اور ان کو مشتہر کرنے پر سالانہ اربوں روپے کے اخراجات کئے جاتے ہیں ‘ رہے بے چارے ہاتھی تو ان کے حوالے سے کئی محاورے ایجاد کرکے ان کو محفوظ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ‘جیسے کہ ہاتھیوں کی لڑائی میں گھاس کی شامت آتی ہے’ ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں ‘ قرآن حکیم فرقان حمید میں سورة فیل سے بھی ایک اہم واقعے کو بیان کیا گیا ہے ‘جس پر میرا اپنا ایک شعر ہے کہ
معجزہ تھا کنکر کا
فیل ‘ فیل خاموشی
برصغیر میں قدیم زمانے میں جنگوں کے دوران ہاتھیوں کا کردار اہم رہا ہے ‘ اور اس حوالے سے پورس کے ہاتھیوں کی داستان عبرت کا سامان مہیا کرتا ہے ‘ پشتو میں ہاتھی کے پائوں کے نشان کے حوالے سے ”اوخ پل” ہماری سیاسی زندگی میں بہت ہی اہمیت کا حامل ہے ‘ اس حوالے سے اے این پی کے کسی صاحب”فہم و ذکا” سے معلوم کیا جا سکتا ہے جبکہ مزید حماقتیں نامی کتاب میں کرنل شفیق الرحمان نے ایک شعر کی پیروڈی یوں کی ہے کہ
”پتا دیتی ہے شوخی نقش پا کی”
گیا ہے اونٹ کوئی اس طرف سے

مزید پڑھیں:  سلامتی کونسل کی قراردادکے باوجوداسرائیل کی ہٹ دھرمی