مشرقیات

‘رحیق المختوم میں صفی الرحمن مبارکپوری صاحب نے سیرت کے ابواب شروع کرنے سے پہلے عرب کے سابقہ ادوار و حالات بیان کرتے ہوئے ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ۔۔۔
ابراہیم علیہ السلام مدتوں بعد اپنے ملک سے مکہ آئے تا کہ بیٹے اسماعیل سے ملاقات ہو سکے۔ باپ بیٹا عرصے سے دور تھے تو دل مچلا ہو گا خلیل چلے آئے۔ دروازے پر دستک دی مخاطب سے پوچھا اسماعیل کہاں ہیں۔
فرمانے لگیں کہ وہ تو رزق کی تلاش میں گئے ہیں۔ خلیل اللہ پوچھنے لگے کہ بتائو گزر بسر کیسا ہو رہا ہے زندگی کیسی چل رہی ہے۔ فرمانے لگیں کہ
برے حالات ہیں۔ مشکل سے گزر بسر ہو رہا ہے۔ اسماعیل علیہ السلام کی خوب شکایتیں کیں۔
ابراہیم علیہ السلام بولے کہ اس کو میرا سلام کہنا اور کہنا کہ گھر کی چوکھٹ بدل لے۔
بیٹا واپس آیا پیغمبر کا لخت جگر بھی پیغمبر، خوشبو پائی تو پوچھا کون آیا تھا۔ اہلیہ نے سارا واقعہ سنا دیا اور یہ بھی بتا دیا کہ وہ کہہ گئے کہ چوکھٹ بدل لو۔ اسماعیل علیہ السلام بولے کہ وہ میرے بابا جان تھے اور تمہارے رویے کی بنا پر کہہ گئے ہیں کہ تمہیں طلاق دے دوں اور نئی شادی کر لوں۔
عرصہ گزرا پھر خلیل آئے۔ دستک دی۔ مخاطب سے سوال و جواب کا وہی سلسلہ اسماعیل علیہ السلام پھر رزق کی تلاش میں کہیں باہر تھے۔ پھر وہی بازگشت کہ گزر بسر کیسی ہو رہی۔ نیک تھی صبر والی شاکر بیوی۔ کہنے لگی اللہ کا بڑا احسان ہے اچھا گزر بسر ہو رہا۔ اچھا سلسلہ چل رہا ہے۔ شکر ادا کرتے خود کو مطمئن اور خاوند کے بارے اچھے کلمات ادا کیے۔
ابراہیم کہنے لگے اسماعیل کو سلام کہنا اور کہنا کہ گھر کی چوکھٹ کی حفاظت کرے۔
اسماعیل آئے بابا جان کی خوشبو پائی تو پوچھا بیوی نے سارا ماجرا سنایا انکا سلام دیا اور یہ بھی کہا کہ وہ کہہ گئے ہیں کہ چوکھٹ کی حفاظت کرے۔
اسماعیل کہنے لگے کہ وہ میرے بابا جان تھے اور وہ تمہاری باتوں اور تمہارے صبر شکر سے بہت مطمئن ہوئے ہیں۔ اس لیے کہہ گئے ہیں کہ تم بہترین بیوی ہو تمہاری حفاظت کروں۔
باپ پیغمبر تھے بیٹے کی خصوصیات اور صفات سے واقف تھے۔ اس لیے بیوی کے لہجے اور رویے سے ہی سمجھ گئے کہ حقیقت کیا ہے۔ چوکھٹ بدلنے اور پھر دوسری دفعہ چوکھٹ کی حفاظت کرنے کا حکم دے کر معیار قائم کر دیا اور سمجھا دیا کہ
: اگر مرد ذمہ دار ہے۔ فکر معاش کے لیے کوشاں ہے۔ اپنی ذمہ داریوں سے روشناس ہے انکو نبھانے کے لیے سرگرداں ہے تو بیوی کو بھی چاہیے کہ رونے دھونے، اس کی چغلیاں اور خامیاں بیان کرنے کی بجائے ، حالات پہ ماتم کرنے کی بجائے صبر شکر اور قناعت کرنے والی بنے۔ اس کا ساتھ دے۔ اس کو سپورٹ کرے۔ اس کے لیے سکون کا باعث بنے تا کہ وہ اچھے سے اپنی ذمہ داریوں سے انصاف کر سکے”

مزید پڑھیں:  جگر پیوند کاری اور بون میرو ٹرانسپلانٹ سنٹرز کا قیام