خطرے کی گھنٹی

موڈیز نے کہا ہے کہ پاکستان، عالمی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف)بیل آئوٹ پیکیج کے بغیر ڈیفالٹ کر سکتا ہے کیونکہ اس کے پاس جون کے بعد فنانسنگ کے حوالے سے غیریقینی صورتحال ہے۔بلومبرگ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان جون میں ختم ہونے والے موجودہ مالی سال میں باقی غیر ملکی ادائیگیاں کر دے گالیکن جون کے بعد پاکستان کی فنانسنگ کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال ہے، پاکستان آئی ایم ایف پروگرام کے بغیر ڈیفالٹ کرسکتا ہے کیونکہ اس کے زرمبادلہ کے ذخائر بہت کمزور ہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان 6.5 ارب ڈالر کے آئی ایم ایف بیل آئوٹ پروگرام کو بحال کرانے کی کوشش کر رہا ہے، جو شرائط پوری نہ ہونے کے سبب معطل ہے، اس سال انتخابات سے قبل سیاسی تنائوکی وجہ سے قرض ملنے میں تاخیر کا خطرہ بڑھا ہے۔پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 4 ارب 50 کروڑ ڈالر کے قریب ہیں، جس سے بمشکل ایک مہینے کی درآمدات ہوسکتی ہیں۔دوسری جانب، وفاقی وزیر توانائی خرم دستگیر نے کہا کہ مغربی ممالک میں تو ایک سال سے یہ پیش گوئیاں جاری ہیں کہ پاکستان ڈیفالٹ کر چکا ہے یا عنقریب کر جائے گا لیکن آج تک ایک بین الاقومی ادائیگی میں ایک گھنٹے کی بھی تاخیر نہیں کی بلکہ کچھ ادائیگیاں تو وقت سے پہلے کر دی ہیں۔ان سے پوچھا گیا کہ اگر آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول کا معاہدہ نہیں ہوتا تو حکومت کس طرح اگلا بجٹ پیش کرسکے گی؟ جس پر وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف کی سطح کے معاہدے پر دستخط میں ناکامی سے پاکستان کا انحصار چین کی طرف مزیدبڑھ جائے گا۔امر واقع یہ ہے کہ موجودہ حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد بھی ملکی معیشت میں کوئی بہتری نہ آسکی حکومت کی محض قرضوں پر انحصار کی پالیسی سے ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے آئی ایم ایف پیکج کی بحالی سے متعلق اقدامات سے ملک کا صنعتی شعبہ خاص طور پرمتاثر ہوا ہے برآمدات کم ترین سطح پر آچکی ہیں افراط زر میں اضافہ ہوا ہے ۔جس سے مہنگائی میں اضافہ اور عوام کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے اب مزید تاخیر کی گنجائش نہیں سوائے اس کے کہ آئی ایم ایف بیل آئوٹ پیکج کی بحالی کی کوششیں تیز کی جائیں اس کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت کو مستحکم بنیادیں فراہم کرنے پر بھی بطور خاص توجہ کی ضرورت ہو گی کیونکہ صرف قرضوں پر انحصار سے ملکی معیشت مستحکم نہیں ہو سکتی اور نہ ملک معاشی بحران سے قرض لے کر نکلنے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔

مزید پڑھیں:  ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی حکمرانی