بائیومیٹرک برائے گرفتاری

)محمد فہیم(منگل کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ کی عمارت میں بائیومیٹرک تصدیق کیلئے آنیوالے سابق وزیر اعظم پاکستان اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو القادر ٹرسٹ کیس میں قومی احتساب بیورو (نیب ) نے گرفتار کرلیا گیا ۔ پی ڈی ایم کی حکومت نے نیب قانون میں جو ترامیم کی ہیں ان میں یہ شامل کیا گیا ہے کہ کسی بھی کیس میں گرفتاری کیلئے 4وجوہات کو بنیاد بنایا جا سکتا ہے ۔پہلی وجہ ملزم کا شامل تفتیش نہ ہونا یا پھر بار بار نوٹس جاری کرنے پر بھی پیش نہ ہونا ہے۔ دوسری وجہ ملزم کا بھاگ جانا ہے ۔تیسری وجہ نیب کو اس بات کا یقین ہوجانا ہے کہ ملزم موجود ثبوت یا شواہد کو تبدیل یا خراب کرسکتا ہے ۔
جبکہ آخری وجہ ملزم پر اس جرم کے دوبارہ کرنے کا پختہ یقین ہو۔ ان چاروں میں سے کوئی ایک وجہ بھی ہوتو چیئرمین نیب گرفتاری کا حکم جاری کرسکتا ہے تاہم ماہرین قانون کے مطابق عمران خان ان میں سے کسی بھی ایک کے مرتکب نہیں ہیں ایسے میں انہیں گرفتار نہیں کرنا چاہئے تھا۔ نہ تو عمران خان اس جرم کو دوبارہ کرسکتے ہیں، نہ وہ ثبوت اور شواہد تبدیل کرسکتے ہیں ، وہ ملک سے باہر بھی نہیں جا رہے اور وہ تفتیش میں تعاون بھی کررہے ہیں۔ عمران خان کو منگل کے روز احاطہ عدالت سے گرفتار کرلیا گیا انہیں رینجرز نے نیب کی درخواست پرگرفتار کیا جب وہ بائیومیٹرک کروا رہے تھے اور کمرہ اندر سے بند تھا تو عمران خان کی گرفتاری کیلئے کمرے کا شیشہ توڑدیا گیا جس کے بعد انہیں دھکیلتے ہوئے گاڑی میں بٹھا کر دوسری جگہ منتقل کردیا گیا ۔عمران خان کی گرفتاری کے وقت ان کے ساتھ پی ٹی آئی کا کوئی بھی رہنما موجود نہیں تھا جبکہ ان کے ساتھ ورکرز بھی نہیں تھے ان کے وکیل بیرسٹر گوہر علی کے مطابق عمران خان اور انکی لیگل ٹیم پر تشدد بھی کیا گیا۔
عمران خان کی گرفتاری کے بعد انہیں نیب آفس راولپنڈی منتقل کیا گیا اور ان کے میڈیکل کیلئے ٹیم تشکیل دی گئی جس نے رات گئے معائنہ کے بعد عمران خان کو صحت مند قرار دیدیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کی حدود میں انکی گرفتاری سے متعلق چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے سماعت کی اور وفاقی اداروں سمیت پی ٹی آئی کے وکلاء کے دلائل سنے جس کے بعد انہوں نے عمران خان کی گرفتاری کو قانونی قرار دیدیا تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ کی حدود میں جس طرح انہیں گرفتار کیا گیا اسے توہین عدالت قرار دیتے ہوئے آئی جی اسلام آباد اور سیکرٹری داخلہ کو نوٹس جاری کردئے۔
عمران خان کو القادر ٹرسٹ کیس میں قومی احتساب بیورو نے گرفتار کیا ہے۔ نجی ہاؤسنگ سوسائٹی بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض نے القادر ٹرسٹ کو 458 کنال زمین عطیہ کی تھی اور یہ القادر ٹرسٹ عمران خان اوران کی اہلیہ بشری بی بی کے نام پر ہے۔ وفاقی حکومت کے مطابق بحریہ ٹاؤن نے 458 کنال کی اراضی کا معاہدہ کیا جس کی مالیت کاغذات میں 93 کروڑ روپے بتائی گئی جب کہ اصل قیمت ان کے مطابق پانچ سے 10 گنا زیادہ تھی۔اس زمین کو بحریہ ٹاؤن نے عطیہ کیا اور اس میں ایک طرف دستخط بحریہ ٹاؤن کے عطیہ کنندہ کے ہیں اور دوسری جانب سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کے ہیں۔القادر ٹرسٹ کے نام پر منتقل کی گئی اس قیمتی اراضی کے دو ہی ٹرسٹی ہیں جس میں پہلی بشریٰ خان ہیں اور دوسرے سابق وزیر اعظم عمران خان ہیں۔ عمران خان کے خصوصی معاون برائے احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر نے کہا تھا کہ برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے لندن میں ملک ریاض سے ایک تصفیے کے نتیجے میں ملنے والی 19 کروڑ پاؤنڈ کی رقم(تقریبا 60 ارب روپے )ریاستِ پاکستان کو منتقل کیے۔موجودہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ سابق وزیراعظم نے کابینہ سے منظوری کے بعد منتقل کی گئی رقم قومی خزانے میں جمع کرانے کے بجائے ملک ریاض کی واجب الادا ادائیگیوں کی مد میں ایڈجسٹ کر دی ۔
جب کہ یہ الزام بھی عائد کیا جا رہا ہے کہ عمران خان نے شہزاد اکبر کی مدد سے قیمتی جائیداد اپنے نام کروائی۔نیب نے اس معاملے پر کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے چئیرمین تحریک انصاف عمران خان اور ان کے سابق معاون زلفی بخاری کو متعدد نوٹسز جاری کیے تھے۔نیب راولپنڈی نے ملک ریاض حسین کو بھی طلبی کا نوٹس جاری کیا تھا جب کہ شہزاد اکبر و دیگر کے خلاف اختیارات کے غلط استعمال سے متعلق مبینہ غیر قانونی ایڈجسٹمنٹ کی تحقیقات بھی احتساب کا ادارہ کر رہا ہے۔

مزید پڑھیں:  عید الفطر 10 اپریل کو ہونے کا امکان