ویب ڈیسک:سپریم کورٹ نے عمران خان کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے انھیں رہا کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ عدالت نے عمران خان کو ہائیکورٹ سے رجوع کرنے کی ہدایت کی ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ ان کی نظر میں عمران خان کی گرفتاری قانون کے مطابق نہیں۔سپریم کورٹ میں دوران سماعت عمران خان نے عدالت کو بتایا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ سے جب انھیں گرفتار کیا گیا توان پر ڈنڈے برسائے گئے اور ایسا تو کسی عادی مجرم کے ساتھ بھی نہیں ہوتا۔مجھے کبھی پولیس لائن اور کبھی کہیں لے کر پھرتے رہے۔ جو میرے ساتھ ہوا اس کا ردعمل تو آئے گا۔گرفتاری کے بعدمجھے کچھ علم نہیں باہر کیا ہوا ،پرتشددواقعات کامیں ذمہ دارنہیں۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے عمران خان کے جواب پراپنے ریمارکس میں کہا کہ آپ پرتشددواقعات سے کیسے لاتعلق رہ سکتے ہیں،کوئی لیڈریہ نہیں کہہ سکتاکہ میں ورکرزکے عمل کاذمہ دار نہیں۔دوران سماعت چیف جسٹس نے عمران خان کو کہا کہ آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی، ملک میں آپ کی گرفتاری کے بعد تشدد کے واقعات ہو رہے ہیں، ہم ملک میں امن چاہتے ہیں۔ہمارے لیے آپ کا ایک مقام ہے اور ہم آپ کو ایک سینئر لیڈر کے طور پر دیکھتے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عمران خان کی گرفتاری غیرقانونی تھی،گرفتاری کو ہم واپس کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عمران خان سپریم کورٹ کے زیر سایہ پولیس لائنز گیسٹ ہائوس میں رکھے جائیں گے اور گرفتارتصور نہیں ہوں گے۔
عمران خان نے استدعا کی کہ انہیں بنی گالہ میں رہنے کی اجازت دی جائے تاہم چیف جسٹس نے کہا کہ آپ عدالت کی نگرانی میں ہیں، ہم نہیں چاہتے کہ آپ کو کوئی نقصان پہنچے، سرکار تمام سکیورٹی کو یقینی بنائے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ 23 کروڑ لوگ انتظار کر رہے کہ ہمارا لیڈر اس کشتی کو آگے چلائے، آپ اس کشتی کو آگے نکالنے میں مدد کریں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آئین کے تحت عوام کی خدمت کرنے والا امین ہوتا ہے، آپ کے مخالفین بھلے ٹھیک نہ لگیں لیکن وہ بھی حقیقت ہے، توقع دوسرا فریق بھی اپنا کردار ادا کرے گا ۔ چیف جسٹس عمرعطابندیال کا کہنا تھا کہ ہمیں یقین ہے کہ آپ قانون کی حکمرانی چاہتے ہیں، مجھے دھمکی دی گئی کہ آپ اپنے اوپر حملے کا انتظار کریں۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ان کی خواہش ہے کہ عمران خان اپنی گرفتاری کے بعد ہونے والے مظاہروں کی مذمت کریں
، جس پر عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ گرفتاری کے بعد پرتشدد واقعات کے ذمہ دار نہیں۔انھوں نے عدالت کو بتایا کہ جو جماعت الیکشن چاہتی ہے وہ انتشار کیسے چاہ سکتی ہے۔چیف جسٹس نے عمران خان کو یہ بھی کہا کہ آپ اس بات کی یقین دہانی کرائیں کہ آپ کی جماعت کے کارکن پر امن رہیں گے۔ سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے سے گرفتاری کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے انھیں عدالتی نگرانی میں پولیس لائنز گیسٹ ہائوس منتقل کرنے کا حکم دیا ہے۔عمران خان نے سپریم کورٹ سے گھر جانے کی استدعا کی تھی، جسے عدالت نے مسترد کر دیا اور انھیں پولیس لائنز کے گیسٹ ہائوس میں رہنے کا حکم دیا ہے۔
اس دوران صرف دس افراد کو عمران خان سے ملنے کی اجازت ہو گی۔چیف جسٹس نے عمران خان کو یہ بھی کہا ہے کہ وہ نیب وارنٹ گرفتاری کے معاملے پر درخواست ہائی کورٹ جا کر دیں اور اس حوالے سے انھیں ہائیکورٹ کے فیصلے کو ماننا ہو گا۔واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے عمران خان کی گرفتاری کوقانونی قراردینے کے اسلام آبادہائیکورٹ کے حکم کے خلاف دائردرخواست کی سماعت کے دوران عمران خان کوایک گھنٹے کے اندرسپریم کورٹ میں پیش کرنے کاحکم دیاتھاجس پرعمران خان کوسخت سکیورٹی میں سپریم کورٹ پہنچایاگیا۔
عمران خان کی گرفتاری کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ غیر قانونی کام سے نظریں نہیں چرائی جا سکتیں اور انصاف تک رسائی ہر شخص کا حق ہے۔ تین رکنی بینچ میں شامل جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ نیب کے حکام ملزم کو گرفتار کرنے سے پہلے ہائی کورٹ کے رجسٹرار سے رابطہ کرتے؟نیب کے حکام نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا ہے، نیب کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ عوامی نمائندوں کو ایسے ہی گرفتار کرتا ہے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کیسے کسی شخص کو سپریم کورٹ ہائی کورٹ یا احتساب عدالت سے گرفتار کیا جا سکتا ہے جبکہ وہ خود کو سرنڈر کر چکا ہو۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس واقعہ کے بعد کوئی شخص بھی عدالت میں خود کو محفوظ تصور نہیں کرے گا۔
انھوں نے کہا کہ نیب نے توہین عدالت کی ہے اور انہوں نے عدالتی تقدس کو پامال کیا ہے۔سپریم کورٹ کے حکم کے بعد عمران خان نے کارکنوں سے پرامن رہنے کی ہدایت کی اور کہا کہ ملک کو کوئی نقصان نہیں پہنچنا چاہیے، کارکنان پرامن ہو جائیں۔انہوں نے کہا کہ ملک میں انتشار نہیں چاہتے، ملک میں صرف الیکشن چاہتے ہیں، کل وکلا نے مجھے بتایا انتشار ہو رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ میرے سر پر ڈنڈے مارے گئے، مجھے علم ہی نہیں ملک میں کیا ہو رہا تھا، مجھے ایسے پکڑا گیا جیسے دہشت گرد ہوں، میں مظاہروں کا ذمہ دار کیسے ہوگیا۔دوسری طرف عمران خان کی رہائی کاحکم جاری ہوتے ہی ملک بھر میں تحریک انصاف کااحتجاج جشن میں تبدیل ہوگیا اورکارکنوں نے مٹھائیاں تقسیم کیں،بھنگڑے ڈالے اورسڑکوں پرجشن منایا۔
