یہ طوائف الملوکی نہیں تو پھر کیا ہے

پہلے تو یہی دیکھا اور سنا بلکہ اب بھی ہمارے بہت سے سرکاری دفاتر میں عوام کی اکثریت اپنی بے بسی اور لاچاری کا رونا رو رہی ہوتی ہے کہ ان کی یہاں کوئی شنوائی نہیں، روزانہ فاصلے طے کر کے لوگ اپنے کام کی غرض سے مختلف دفاتر کا رخ کرتے ہیں مگر سارا دن کبھی ایک کمرہ سے دوسرے تو کبھی ایک اہلکار سے دوسرے کے حضور پیش ہوتے ہیں اور آخر ناکام واپس لوٹ آتے ہیں لیکن اب تو اس بد نظمی اور بد انتظامی نے پورے ملک میں انتشار کی کیفیت پیدا کر رکھی ہے، اداروں، محکموں اور بڑے بڑوں کی جان پہ بنی ہوئی ہے، ہر طرف افراتفری، آپا دھاپی اور اندھیر نگری کا عالم ہے، یوں لگتا ہے کہ پوری قوم بھنور میں ہے اور ساحل دور ہوتا جا رہا ہے، معاشی انحطاط اور دہشت گردی کے ساتھ ساتھ اب اداروں کی ٹوٹ پھوٹ، اداروں پر حملے اور ایک بے یقینی کی فضاء طاری ہے، اس ملکی زوال کے ذمہ دار کون ہیں، اس سازش میں کون شریک ہیں؟ اب یہ معاملات سب کے علم میں ہیں اور کوئی بات ڈھکی چھپی نہیں رہی، اس ملک میں عدم استحکام ، غیر جمہوری روئیوں اور آئین شکنی کا سبب بننے والے کردار اب منظر عام پر آچکے ہیں، ہماری سیاسی تاریخ کا یہ بھی المیہ رہاکہ یہاں شخصیات نے اپنے درمیان پائے جانے والے اختلافات کی وجہ سے قومی سطح پر ہمیشہ مشکلات پیدا کیں، ممدوٹ دولتانہ اختلافات، خواجہ ناظم الدین، غلام محمد اختلافات، سکندر مرزا جنرل ایوب اختلافات، جنرل ایوب بھٹو اختلافات، بھٹو جنرل ضیاء اختلافات، ضیاء جونیجو اختلافات، بے نظیر غلام اسحاق اختلافات ، غلام اسحاق نواز شریف اختلافات، لغاری زرداری اختلافات، نواز شریف جنرل مشرف اختلافات، نواز شریف عمران خان اختلافات اور اب ایک مسلسل اختلاف جس نے پوری قوم کو تقسیم کر کے نفرتیں پیدا کر دی ہیں، جن ملکوں نے شہنشاہیت، آمریت اور غیر ملکی غلامی سے نجات پائی اور مکمل طور پر جمہوری نظام اپنایا، وہاں شخصیات کے اختلافات
اتنی زیادہ اہمیت نہیں حا صل کر سکتے کہ قومی ترقی کا پہیہ ہی جام کر کے رکھ دیا جائے، سیاسی تاریخ کو مسخ کیا جائے اور ملک میں انتشار اور بدامنی پیدا ہو، جمہوری نظام میں آئین کی بالادستی تسلیم شدہ ہے، اس نظام کی خوبی ہے کہ لوگ سیاسی لحاظ سے اتنے بالغ النظر ہوتے ہیں کہ اگر کہیں کوئی اختلاف پیدا ہو تو اس کی نوعیت نظریاتی اور آئینی ہوتی ہے، ایسا نہیں ہوتا کہ ہوس اقتدار کے لئے ذاتی ، گروہی اختلافات اور عالمی طاقتوں کے اشاروں کو بنیاد بنا کر ایک دوسرے کے خلاف اتنی شدت سے صف آرا ہو جائیں کہ ملک میں عدم استحکام اور ملکی سلامتی خطرے میں پڑ جائے، ہم نے اپنے ہاں شخصی اختلاف کے نتیجے میں اسمبلیوں اور اداروں کی ٹوٹ پھوٹ ہی دیکھی ہے، یہاں کسی منتخب وزیراعظم کے لئے اپنے پانچ سال پورے کرنے مشکل ہو جاتے ہیں بلکہ اپنی مدت پوری کرنے سے پہلے چند تو نا اہل بھی قرار دیئے گئے، ہمارے دستور کے بخیے ادھیڑے گئے، کوئی ریاستی اور آئینی ادارہ غیر جمہوری اقدامات کے جرم سے اپنے آپ کو بری الذمہ کہنے کی جرأت نہیں کر سکتا، قیام پاکستان کے بعد ہمیں نظریاتی سیاست اور جمہوری اقدار اپنانے سے دور رکھا گیا، ہماری سیاست ابھی تک غیر جمہوری اور آمرانہ قوتوں کے تابع چلی آ رہی ہے، خاندانی اور نسل در نسل ریاکاری کی سیاست کو عوامی خدمت کا نام دے کر انفرادی جرائم کی پردہ پوشی کی جاتی رہی ہے، افسوسناک امر یہ ہے کہ برسوں سے ہم سیاسی کارکن پیدا کرنے اور جمہوری انداز میں قوم کی ذہن سازی کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں، یہ جمہور کی کس قدر بے چارگی ہے کہ یہاں غیر سیاسی اذہان رکھنے والی کچھ مقبول شخصیات اور کچھ سرمایہ داروں کو ہمارے منصوبہ سازوں نے ” لیڈر ” کے طور پر سیاست کے میدان میں اتارا، وہ نئے بیانیوں ، خوش گمانیوں اور تبدیلی لانے کے خوش کن نعروں سے جمہور کی آواز بن گئے، عوام کو درپیش مسائل کے حل اور قوم کی لوٹی ہوئی دولت کو چوروں ڈاکوؤں سے واپس لینے کے وعوؤں سے جذباتی عوام کی ایک اکثریت ان مینوفیکچرڈ لیڈروں کے سحر میں مبتلا ہو گئی، ان سیاسی سازشوں بلکہ پراجیکٹس کے نتیجہ میں قوم کئی حصوں میں بٹ گئی، ادارے تقسیم ہونے لگے اور ادارہ جاتی کشمکش کا آغاز ہوا، ہمارے ملک میں الیکٹرانک میڈیا نے ابتداء ہی سے اپنے تجارتی تقاضوں کی خاظر ایسے ایسے ارسطو ڈھونڈ نکالے جو روزانہ ٹیلی ویژن کی سکرین پر آ کر قوم کو ان لیڈروں کا عقیدت مند بنانے میں اپنا بیوپاری کردار ادا کرتے رہے، سیاسی فکر کو فروغ ملنے کی بجائے شخصیت پرستی پروان چڑھتی رہی، سیاسی کارکنوں کی بجائے عقیدت مندوں کی ایسی کھیپ تیار ہوگئی ہے جو اپنے اپنے مرشدوں کو ہی مسیحا اور نجات دہندہ سمجھنے لگی جبکہ مخالفین کو گمراہ خیال کرنے کے علاوہ انہیں چور اور ڈاکو بھی کہا جاتا ہے، وہ یہ ہرگز محسوس نہیں کرتے کہ کون ان کے دماغ کو، ان کی حرکات و سکنات اور یہاں تک کہ سوچ کو کنٹرول کر رہا ہے، دوسری طرف دیکھیں تو کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس کوئی ایسا لائحہ عمل نہیں کہ جمہوری نظام کی پختگی اور استواری کی ضامن بنے ۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی بلوغت نہ ہونے سے جمہوری نظام میں مسلسل مداخلت ہوتی رہی ہے اور اسے ایک کٹھ پتلی نظام بنایا گیا، اپنے ذاتی اور ادارہ جاتی مفاد کی خاطر ایسا نظام تشکیل دیا جاتا ہے، افسوس یہ ہے کہ اس نظام کو پروان چڑھانے میں یہی مرشد نما سیاستدان شامل ہوتے ہیں اور اپنے وقتی اقتدار کی خاطر ملکی مفادات کو داؤ پہ لگا دیتے ہیں، آج اسی سیاسی بحران کی وجہ سے اداروں میں بھی افراتفری پھیلی ہوئی ہے اور سیاسی مسائل کو پارلیمنٹ میں حل کرنے کے لئے بھی سنجیدگی دکھائی نہیں دیتی۔

مزید پڑھیں:  تزئین و آرائش بعد میں ،پہلے شہر بچائو