سابق وزیراعظم اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک کے درجنوں شہروں اور قصبوں میں پرتشدد مظاہروں اور جلائو گھیرائو سے پیدا ہوئی ابتر صورتحال کے بعد پنجاب اور خیبرپختونخوا میں فوج طلب کرلی گئی ہے جبکہ پی ٹی آئی کے رہنمائوں شاہ محمود قریشی، اسد عمر، سیف اللہ نیازی عمران اسماعیل نے بدھ کی دوپہر ملک بھر میں دیئے جانے والے احتجاجی دھرنوں کے پروگرام کو منسوخ کردیا، ان رہنمائوں نے گزشتہ سہ پہر سے رات گئے تک ہونے والے ہنگاموں سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی سیاسی جماعت ہے کارکن پرتشدد مظاہروں اور املاک پر حملوں کا حصہ نہ بنیں، ادھر اسلام آباد ہائیکورٹ نے عدالت کے ریکارڈ روم سے عمران خان کی گرفتاری پر لئے گئے ازخود نوٹس کا محفوظ فیصلہ رات گئے سناتے ہوئے گرفتاری کو قانونی قرار دے دیا، قبل ازیں چیف جسٹس نے اس گرفتاری اور احاطہ عدالت میں پیش آنے والے بعض واقعات پر شدید برہمی ظاہر کرتے ہوئے ازخود نوٹس لیا تھا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں سیکرٹری داخلہ اور آئی جی پولیس اسلام آباد کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے 16 مئی کو جواب جمع کرانے کا حکم دیا، پی ٹی آئی کے سربراہ کی القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتاری کے بعد تحریک انصاف کے کارکنوں نے ملک کے درجنوں بڑے چھوٹے شہروں اور قصبوں میں پرتشدد احتجاج کے دوران عسکری و دیگر سرکاری املاک کے ساتھ عوامی ملکیت کی املاک کو بھی بری طرح نقصان پہنچایا، توڑ پھوڑ کی اور آگ لگائی، ان پرتشدد مظاہروں کے بعد خیبرپخترنخوا میں 4 دن کے لئے تعلیمی ادارے بند کرکے تمام امتحانات منسوخ کردیئے گئے، پنجاب میں بدھ کو ہونے والے جماعت نہم کے پرچے کو منسوخ کر دیا گیا، نجی تعلیمی اداروں کو بند کرنے کے معاملے میں سکول مالکان کے دونوں گروپوں میں اتفاق نہ ہو سکا جبکہ سندھ حکومت نے ایک روز کے لئے تعلیمی ادارے بند کرتے ہوئے اس دن ہونے والے امتحانات منسوخ کر دیئے، پی ٹی آئی کے احتجاج کی بدولت قومی شاہراہ پر ٹریفک کی روانی متاثر ہوئی جبکہ لاہور، فیصل آباد، ملتان، پشاور، کوئٹہ اور کراچی سمیت متعدد چھوٹے بڑے شہروں میں نظام زندگی درہم برہم ہوکر رہ گیا۔ منگل کی شب پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل اسد عمر نے جلائو گھیرائو اور تشدد میں مصروف عناصر سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہماری جماعت پرامن احتجاج پر یقین رکھتی ہے، پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت میں شامل تقریباً سبھی اہم رہنماء پرتشدد مظاہروں اور حملوں سے
لاتعلقی کا اعلان کررہے ہیں لیکن ان مظاہروں، حملوں اور جلائو گھیرائو کے واقعات میں پی ٹی آئی کے پرجوش کارکن اور مقامی رہنماء نہ صرف پیش پیش تھے بلکہ ان میں سے متعدد نے اپنے سوشل میڈیا اکائونٹس پر فتوحات کی ویڈیوز شیئر کیں، عمران خان کو نیب نے کرپشن کیس میں گرفتار کیا اس گرفتاری کو سماجی و اخلاقی اقدار کے منافی قرار دیتے ہوئے پی ٹی آئی کے رہنما ماضی (اپنے دور) میں ہوئی نیب گرفتاریوں کے عمل اور طریق کار کو یکسر نظرانداز کرگئے حالانکہ وہ اس وقت کرپشن کے الزام میں گرفتار ہونے والوں کو میڈیا ٹرائل کے ذریعے قومی مجرم ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھتے تھے، عمران خان کی گرفتاری درست ہے یا غلط اور القادر ٹرسٹ کرپشن کیس حقیقت پر مبنی ہے یا بقول سابق حکمران جماعت یہ سیاسی انتقام کا حصہ ہے، اس کا فیصلہ عدالت نے کرنا ہے البتہ جس طرح ان کی گرفتاری کو قانونی قرار دیئے جانے کے بعد سوشل میڈیا پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے خلاف مہم چلائی گئی اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان کے پرجوش حامی مستقبل میں کیا رویہ اپنائیں گے۔ گزشتہ روز کے پرتشدد واقعات کا شہری علاقوں سے نکل کر چھائونیوں کی حدود تک وسیع ہونا اور بعض اعلیٰ عسکری حکام کی قیام گاہوں پر حملوں، توڑپھوڑ اور سامان و عمارتوں کو جلانے کے واقعات اس مہم کا منطقی نتیجہ ہی قرار پائیں گے جو عمران خان اور ان کی جماعت پچھلے ایک برس سے سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف چلارہے تھے، فوری طور پر یہ کہہ کر بری الذمہ نہیں ہوا جا سکتا کہ ہماری جماعت پرامن احتجاج اور جدوجہد پر یقین رکھتی ہے، جلائو گھیرائو میں مصروف عناصر بہرطور تحریک انصاف کے مقامی رہنمائ، کارکن اور ہمدرد تھے۔ اس معاملے کا ایک افسوسناک پہلو پشاور، کراچی اور لاہور میں افغان مہاجرین کا جلائو گھیرائو کے عمل میں شریک ہونا ہے، راولپنڈی میں تو افغان مہاجرین کے خاندانوں کے نوجوانوں کی باقاعدہ نشاندہی بھی ہوئی ہے۔ ہٹ دھرمی، الزامات کی تکرار اور
مسلسل فوج کے اعلیٰ افسروں پر امریکی سازش کا حصہ ہونے کے ساتھ اپنے قتل کی سازش کے الزامات نے ملک میں جو عمومی فضاء بنا دی تھی یا جس طرح عمران خان کے حامی اپنی جدوجہد کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ جدوجہد کے طور پر پیش کررہے تھے، گزشتہ روز کے واقعات اسی فہم کا عملی مظاہرہ تھے، سیاسی عمل میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت یا حق حاکمیت اعلیٰ کے شوق نے جو مسائل پیدا کئے وہ کسی سے مخفی نہیں خود عمران خان کے ناقدین ان کی سیاست اور طرزعمل کو اسٹیبلشمنٹ کے حق حاکمیت اعلیٰ کے شوق کا ہی عملی مظاہرہ قرار دیتے ہیں، اسی طرح وہ پچھلے ایک سال سے اپنے مخالفین کو اسٹیبلشمنٹ کے نئے چاپلوس قرار دیتے ہوئے ماضی کی پردہ پوشی کے ساتھ موجودہ حالات میں خود کو ایک نجات دہندہ اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ غلط یا صحیح کی بحث سے ہٹ کر اس امر پر غور کیا جانا بہت ضروری ہے کہ گزشتہ روز عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں جو کچھ ہوا وہ سیاسی، اخلاقی، سماجی اور قانونی طور پر درست ہے یا غلط؟ گزشتہ روز کے واقعات محض افسوسناک نہیں بلکہ شرمناک تھے، ان کی مذمت سے پہلو تہی کا مطلب یہ ہوگا کہ پی ٹی آئی بطور جماعت نہ صرف اس کی ذمہ دار ہے بلکہ پہلو تہی کا مقصد مستقبل میں کارکنوں کو یہی روش اپنانے کا پیغام ہے۔ منگل کی سہ پہر سے رات گئے تک ہونے والے پرتشدد واقعات کے بعد ملک بھر میں گرفتاریوں کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے، اسد عمر، علی زیدی، عمر سرفراز چیمہ جیسے اہم رہنماء گرفتار کرلئے گئے ہیں، بعض کی تلاش جاری ہے۔ اسی طرح مختلف چھوٹے بڑے شہروں سے سینکڑوں افراد کو شناختی عمل مکمل ہونے کے بعد گرفتار کیا گیا ان گرفتار شدگان میں زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو پرتشدد واقعات میں شامل تھے، عمران خان کی گرفتاری کے خلاف پرامن احتجاج، جلسے جلوس اور دھرنے پی ٹی آئی کا قانونی و سیاسی حق تھا اور ہے مگر ابتدائی طور پر جو راستہ اختیار کیا گیا وہ لائق تحسین ہرگز نہیں جس طرح سرکاری املاک کو لوٹا اور جلایا گیا، اس پر تبصرہ کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے بعض ناقدین کا دعویٰ ہے کہ یہ تربیت یافتہ لوگوں کا کام تھا، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ تشدد پر تلے ہوئے عناصر کو محفوظ راستہ دے کر ٹریپ کیا گیا، ان کے خلاف قانونی کارروائی ہوگی۔ یہ منطق اس لئے سمجھ میں نہیں آ پا رہی کہ یہ کیسی حکمت عملی تھی جس میں جلائو گھیرائو کی کھلے دل سے اجازت دی گئی، بہر طور جو ہوا یہ اچھا نہیں ہوا، پی ٹی آئی کو ازسرنو اپنی حکمت عملی کا جائزہ لیتے ہوئے ان عناصر کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی جو تشدد کو بڑھاوا دینے پر آمادہ ہیں۔
