وزیراعظم کا قوم سے خطاب

ملک کے اندر گز شتہ دو تین روز کے ہنگاموں، توڑ پھوڑ اور ملکی املاک کو نقصان پہنچانے کے واقعات کے بعد قوم سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کے ”صد افسوس عمران نیازی اور پی ٹی آئی نے قانونی طرز عمل اختیار کرنا تو در کنار حساس سر کاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچا کر ملک دشمنی کا ناقابل معافی جرم کیا ہے، وزیراعظم نے کہا کے دیکھتی آنکھ نے ایسے دل خراش مناظر پاکستان کی75سالہ تاریخ میں پہلے کہیں نہیں دیکھے تھے، عوام کو سڑکوں اور گاڑیوں میں محصور کر کے ان کی زندگیوں کو خطروں میں ڈالا حتیٰ کہ ایمبولینس سے مریضوں کو نکال کر ان گاڑیوں کو آگ لگا دی’ انہوں نے کہا کہ نجی اور سرکاری گاڑیوں کو جلایا گیا، سوات موٹر وے کو جلایا گیا’ سرکاری حکام کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا’ حساس املاک اور عمارتوں پر دشمن کی طرح حملے کئے گئے، وزیراعظم نے کہا کہ افواج پاکستان کے خلاف چند سو مسلح جھتوں کو اکسانے کی انتہائی گھٹیا اور مذموم حرکت کئی گئی’ شہداء اور غازیوں کی یادگاروں کی بے حرمتی کی گئی اور پوری قوم کے دلوں کو زخمی کیا گیا، انہوں نے کہا کہ 75 سال میں جو پاکستان کا ازلی دشمن کرنے کی جرأت نہ کر سکا ان دہشت گردوں اور ملک دشمنوں نے کر دکھایا جہاں تک وزیراعظم کے قوم سے خطاب کا تعلق ہے، اپنے خطاب میں انہوں نے جن حقائق کی نشاندہی کی ہے ان پر کوئی دو آراء نہیں ہو سکتیں جبکہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کی گرفتاری کو قانون کے عین مطابق قرار دے کر تحریک انصاف کے مشتعل کارکنوں کی ہلڑ بازی پر بھی سخیدہ سوال اٹھا دیئے ہیں اس ضمن میں حکومتی اتحاد میں شامل مختلف جماعتوں کے رہنمائوں کی جانب سے بھی یہی کہا جا رہا ہے کہ عمران خان کے دور یا اس سے بھی پہلے سیاسی رہنمائوں کی مختلف کیسوں میں گرفتاری پر نہ تو ان کے کارکنوں نے قانون کو ہاتھ میں لیا نہ افراتفری کا باعث بنے’ جبکہ قانون کے تحت عمران خان کی گرفتاری کے بعد جس طرح ملک میں انتشار کی کیفیت پیدا کی گئی یہ قابل مذمت ہے’ عمران خان کی گرفتاری کے حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے البتہ عدالت کے احاطے (کورٹ روم سے نہیں) سے ہونے والی گرفتاری پر رجسٹرار ہائی کورٹ کو ایف آئی آر درج کروانے کا حکم دے کر متعلقہ حکام کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا عندیہ ضرور دیا ہے جس کا فیصلہ کیا آتا ہے اس کے لئے بھی تھوڑا سا انتظار کرنا پڑے گا لیکن گرفتاری کو غیر قانونی قرار نہیں دیا’ بہر حال اب دیکھنا یہ ہے کے وزیراعظم اس ساری صورتحال پر کابینہ سے صلاح مشورہ کرکے کیا اقدام اٹھاتے ہیں، اس کا فیصلہ ممکن ہے ایک دو روز تک کیا جائے اور تفصیل قوم کے سامنے آجائے، جو بھی ہو آئین اور قانون کے تقاضوں کے عین مطابق ہی ہونا چاہئے۔

مزید پڑھیں:  شاہ خرچیوں سے پرہیز ضروری ہے!