ایں چنیں ارکان دولت ملک را ویراں کند

ایک حالیہ کالم میں مہاجر قومی موومنٹ کی تشکیل اور عروج کے وقت اس کے راز ہائے درون خانہ سے آشنا ایک قاری کے مشاہدات کو میں نے نہایت احتیاط کے ساتھ شامل کالم کیا تھا جس میں انہوں نے اپنے تجربات کے تناظرمیں تحریک انصاف کے حوالے سے جن خدشات کا اظہار کیا تھا وہ مکمل طور پر کالم کاحصہ تو نہ تھے لیکن جوسطور مجھے اس وقت اشاعت کے قابل نہ لگے بدلتے حالات نے ان سطور کی صداقت اور حقیقت کے دروا کر دیئے لیکن اب بھی میں بوجہ مصلحت ان سطور کا تذکرہ اس لئے نہیں کرنا چاہتی کہ میں خود ایک عرصہ جس جانب متوجہ رہی آج اس بارے میں بعض کھلی حقیقتوں کو پوری طرح سامنے لانا میرے لئے جھجھک کا باعث امر ہے لیکن بہرحال جب حقائق عریاں ہوتے ہیں تو ان کا تذکرہ ہو نہ ہو کوئی زیادہ فرق نہیں پڑتا بہرحال میرے اس قاری نے جن خیالات کا اظہار کیا تھا ان کو حرف بحرف درست دیکھنا ایک تکلیف دہ صورتحال ہے بسا اوقات ہم کسی کی بات احمقانہ جان کر سننے کے بھی روادار نہیں ہوتے لیکن جب وقت ہماری آنکھیں کھول دیتا ہے تو سوائے ندامت کے اور کچھ نہیں ہوتا ان دنوں ملک کے حالات پر افسوس کا اظہار ہی کیا جاسکتا ہے جس دور سے ایم کیو ایم گزری خدا نہ کرے کہ ملک کی کسی دوسری جماعت کوان حالات کا سامنا کرنا پڑے سیاسی جماعتیں اگر سیاست کو تشدد سے پاک اور سیاسی طریقوں سے سیاست چلائیں تو ان کو اس طرح کے دن دیکھنا نہیں پڑیں گے جس کا سامنا ایم کیو ایم کو کرنا پڑا درست ہے کہ ان کی صفوں میں بلوائی شامل ہوسکتے ہیں بعض عناصر کسی خاص وجہ سے ان کو گھیر کر بڑے گڑھے کے دہانے دھکیل سکتے ہیں سبھی قسم کے امکانات ہوتے ہیں اور ہر قسم کی سازشیں ہوسکتی ہیں مگر احتجاج کا جھنڈا جس کا ہو گا ذمہ داری بھی اسی پر عائد ہو
گی۔لوگ سوال کرتے ہیں کہ آخرطاقت کے مرکز کوکیسے نشانہ بنایا گیا جس عمارت کے گیٹ نمبر چار سے اندر جانے کے خواہشمند اس خواہش کو پورا کرنے کے لئے سب کچھ لٹانے کو تیار رہا کرتے تھے جو کل انہی کے سرپرست خیال ہوتے تھے اور برابر اس الزام کا سامنا تھا یہ کیسے ممکن ہوا کہ اسی عمارت میں یوں آسانی سے داخل ہو گئے کہ کسی کو گولی تو درکنار لاٹھی بھی نہ لگی اس سوال کا جواب ہے کہ ان کو پہلے ہی سے معلوم تھا کہ منصوبہ کیا بنایا گیاہے اجلاسوں میں ہدایات کیا دی جارہی ہیں اور تیار ی کس چیز کی ہو رہی ہے ہجوم کی نفسیات کیا ہے اور وہ کس حد تک جاسکتی ہے ڈوریں ہلا کر چھوڑنے سے تو تھوڑی دیر کھلونا بھی خوب تماشا دکھاتا ہے مگر جب ڈوریں کھینچ لی جاتی ہیں اور جتنا ہونے دینے کا منصوبہ ہوتا ہے جب اس پر عمل ہوتا ہے تو پھر اس عمل کا جو رد عمل ہوتا ہے وہ طویل اور صبر آزما ہوتا ہے پہلا مرحلہ ہو چکا اب دوسرا مرحلہ شروع ہوا چاہتا ہے وہ ساری ویڈیوز اور ثبوت موجود ہوں گے جس کی منصوبہ بندی اور انتظامات ہوئے ہوں گے اب شناخت ہوگی اور پھر وہی ہو گا جس کے لئے جال بچھایا گیا ہوگا اس کا کارکنوں کو اندازہ اور قیادت کو ادراک ہونا چاہئے تھا مگر نظر نہ آیا اب کیا ہوگا اور کیا ہونے والا ہے اس کا پہل کرنے والوں کونہیں جال بچھانے والوں کو اندازہ ہو گا مجھے ایک طویل کشیدگی نظر آرہی ہے اور منصوبہ بندی کے ساتھ جولوگ کام کرنے کے عادی ہیں ان کے طریقہ کار کا بھی کچھ کچھ اندازہ ہے بات اب بھی بن جائے تو بگڑی نہیں لیکن اگراس کے باوجود بھی اگر اکڑپن دکھائی گئی تو اس کے نتائج ہر دو فریق اور ملک و قوم کے حق میں اچھا نہیں نکلیں گے میں
نے ایک سیانے سے سوال کیا کہ اب کیا ہو گا کہنے لگے کچھ نہیں بس جن کو بوتل میں بند کر دیا جائے گا جن بوتل میں بند ہو تو چیلے کتنے دن اچھل کود کریں گے پہلے ہی ان کو خاصا اچھل کود کا موقع دیاگیا ہے جس صنم کو اپنے ہاتھوں سے تراشا جاتا ہے اس صنم کے کمزور پہلو اور اس کے ارد گرد کے حصار میں قطار سے ہمدم بھی رکھے جاتے ہیں جو کام بتانے سے لے کر کام آسان کرنے کی ذمہ داری نہایت اچھے طریقے سے نبھاتے ہیں اور کمال فنکاری یہ ہوتی ہے کہ کسی کو ہوا بھی نہیں لگتی ان کی عارفانہ باتیں اکثرمیرے سر کے اوپر سے گزر جاتی ہیں لیکن جب ان کے فرمودہات کی حقیقتیں پرت در پرت کھلتی جاتی ہیں تب یاد آتا ہے کہ اچھا ان کی کہی ہوئی اس بات کا مطلب یہ تھا اور دوسرے کا مطلب یہ چلیں چھوڑیں کن عارفانہ باتوں میں الجھ کر رہ گئے اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں ۔ میں سوچتی ہوں کہ اتنا یہ سب کچھ جو ہوتا ہے وہ دوسرے ملکوں اور معاشرے میں کیوں نہیں ہوتا ہمارے ہاں ہی قوم ہجوم کی نفسیات سے آگے کیوں نہیں بڑھتی شعور اور ذمہ دار شہری کا کردار آخر ہم میں کب آئے گا اس کا ایک ہی حل نظر آتا ہے کہ ہمیں اچھی تعلیم و تربیت کی ضرورت ہے جن جن علاقوں میں ہنر مند تربیت یافتہ اور حقیقی معنوں میں تعلیم یافتہ لوگ رہتے ہیں یا کم از کم وقت اور حالات سے انہوں نے سبق حاصل کیا ہوتاہے ان میں شعور آچکا ہوتا ہے وہ نہ تو بہکتے ہیں اور نہ کوئی بہکا سکتا ہے اور جو بہک جاتے ہیں ان کا ان سے کوئی مفاد ہوتا ہے بہرحال بات تعلیم اور شعور کی ہے تعلیم صرف لکھنے پڑھنے کا نام نہیں بلکہ ایک ا یسا عمل ہے جو ا نسان کو زندگی گزارنے کے طریقوں کا شعور دیتا ہے اور اس میں زندگی کے مقاصد و فرائض کا احساس پیدا کرتا ہے گویا کہ تعلیم ذہنی جسمانی اور ا خلاقی تربیت کا نام ہے جو اونچے درجے کے ایسے مہذب افراد پیدا کرتا ہے جو اچھے انسانوں اور ریاست کے ذمہ دار شہریوں کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دینے کے اہل ہوں تعلیم و تربیت ہی وہ ذریعہ ہے جس کے ذریعے انسان میں وہ اعلیٰ صفات پیدا کی جا سکتی ہیں کہ وہ نہ صرف خود اچھا انسان بنے بلکہ اپنے ملک اور معاشرے کے لئے کارآمد فرد ثابت ہو سکے ۔ بقول شاعر مشرق علامہ اقبال
افراد کے ہاتھوں میں اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
ذرا دیکھیں تو آج کیا سب کچھ الٹ نظر نہیں آتا تعلیم کا جو مقصد بیان کیاگیا ہم اس سے کوسوں دور نہیں؟ اس طرح کا نظام تعلیم طرز تعلیم اور طرز تدریس و تربیت جس کی ہمیں سب سے زیادہ ضرورت ہے موجود ہی نہیں پھر جن افراد کے ہاتھوں میں اختیارات اور اقتدارہے وہ کیسے بونے لوگ ہیں سیاستدانوں کو سیاستدان کہنے اور لکھنے کو دل نہیں مانتا کیا سیاستدان ایسے ہوتے ہیں کہ مل بیٹھنے کو تیار نہیں ایک دوسرے کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں جس سیاست کی معراج کرسی ہو اور ملک و قوم کا درد ثانوی بھی نہ ہو ان سے کیسے اچھائی بھلائی اور کردار کے مظاہرے کی توقع کی جاسکتی ہے قوم ایک ہجوم ہے کہ بس جس طرف ہنکائیں اسی طرف دوڑ پڑے جبکہ ہمارے حکمران و سیاستدان بس اس کی تصویر نظر آتے ہیں ۔
گرک میروسگ وزیر وموش رادرباں کند
ایں چنیں ارکان دولت ملک را ویراں کند

مزید پڑھیں:  بے بس حکومتیں بیچارے عوام