پاکستانی سیاست نئے چوراہے پر

بانی پاکستان محمد علی جناح کی رحلت کے ساتھ تو وطن عزیز میں سیاست ایک کاروبار اور دھندے کی شکل اختیار کرنے لگی تھی کیونکہ طالع آزما سیویلین کو اس جوگے سمجھ ہی نہیں رہے تھے کہ وہ وطن عزیزکی سیاست کو صحیح نہج پر چلا سکتے ہیں حالانکہ اس وقت بنگال( مشرقی پاکستان) کے بڑے نامی گرامی اور باکردار سیاستدان موجود تھے۔ انہوں نے اپنی سی بھرپور کوشش کی کہ پاکستان سرزمین بے آئین نہ بنے اور یہاں قانون کی حکمرانی ہو لیکن جنرل اسکندر مرزا اور جنرل ایوب خان نے ان کی ایک نہ چلنے دی یہاں تک قائد اعظم کی باکردار ہمشیرہ فاطمہ جناح کو بھی گوشہ نشین کروایا گیا۔ وہ دن اور آج کا دن یہ بحث اب بھی مکمل نہیں ہو پارہی کہ پاکستان میں 75 برس بعد بھی آئین و قانون کی حکمرانی نافذ نہ ہونے کا گناہ کس کے سر باندھا جائے ۔ اس سوال پر جتنا بھی سوچا جائے اور کتنی ہی گہری بحثیں ہو جائیں ، نتیجہ اس کا یہی آیا ہے کہ وطن عزیز میں حصول اقتدار کیلئے دونوں طرف (افواج اور سوسیلین) آگ برابر لگی ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 75 برس میں اقتدار کو میوزیکل چیئر بناتے ہوئے فریقین نے برابر برابرمزے لوٹے ہیں ۔ فوجی حکومت آئی، تو ایسے سیاستدانوں کی یہاں کوئی کمی نہیں رہی ہے جنہوں نے سجیلے جرنیلوں کو سمت بسم اللہ جی آیا نوں ، نہ کہا ہو یہی حال ہماری عدلیہ کا بھی رہا ہے ۔۔۔الا ماشاء اللہ یہاں تک کہ ذوالفقار علی بھٹو جیسی شخصیت کو پھانسی بھی عدلیہ کے ہاتھوں لگی ۔جس کی بعد میں جسٹس منیر کی طرح اعتراف ہوتے رہے کہ ہم پر جرنیلوں کا دبائو تھا۔۔۔ حالانکہ ذو الفقار علی بھٹو اور ایوب خان کے درمیان معاہدہ تاشقند تک قریبی اور گہرے تعلقات تھے ۔ جنرل ضیاء الحق اور نواز شریف کے درمیان تو خاص نوعیت کے مراسم تھے اوریہی وجہ تھی کہ جنرل ضیاء نے اپنی باقی ماندہ عمر نواز شریف کو ملنے کی دعا بھی کی تھی ۔
آج پاکستانی سیاست کا ایک اور نیا، انوکھا’ نرالا اور بے مثال رنگ سامنے آیا ہے اس دفعہ اچھی بھلی چلتی پالتی جمہوری حکومت کو بظاہر جمہوری اصولوں کو زیراستعمال لاتے ہوئے پاکستان میں پہلی دفعہ عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے چلتا کیا۔اس عدم اعتماد کو اس لحاظ سے تاریخ میں یاد رکھا جائے گا کہ پچیس کے قریب اراکین اسمبلی ضمیر کے کچوکوں سے بے حد تنگ و مجبور ہوکراپنی پارٹی کے خلاف ووٹ دے کر عدم اعتماد کو کامیاب بنا کر تاریخ رقم کردی ۔ تاریخ پاکستان میں آنے والی نسلیں اس کو اپنے آباو اجداد کا ایک کارنامہ سمجھ کر پڑھیں گے اور دیر تلک سردھنیں گے۔۔ عدم اعتماد کی یہ تحریک بھی تاریخ میں اس لحاظ سے یاد رکھی جائے گی کہ اس نے پاکستان کی کم و بیش تیرہ ایسی سیاسی جماعتوں کو آپس میں مضبوطی کے ساتھ جوڑ دیا تھا جن کی کمیسٹری میں سوائے مشترک مفادات کے کچھ بھی مشترک نہ تھا۔ جبکہ یہ بھی پاکستانی سیاست کی تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ ایک سر پھراسیاست کے آداب و اصولوں سے بے خبر پاکستانی سیاسی برادری کی روایات کے لئے بالکل اجنبی اور ایک لحاظ سے سے ایلین (Alien) نے ان کے مقابلے میں آنے کی ٹھانی اور یقینا وہ ناواقف آداب سیاست تھا اور نتیجتاً اسے اب زنجیریں پہن کر کال کوٹھڑیوں میں ایام حیات گزارنے ہوں گے ۔
پاکستانی عوام کوبھی کیا فضول شوق اور بعض کو تو عشق چڑھا تھا کہ اس کو اپنی ریڈ لائن ڈیکلئر کر دیا۔ اس ناواقف آداب کو یہ معلوم نہ تھا کہ اس دفعہ اس کا مقابلہ ایک ایسی حکومت سے ہو گا جس میں چاروں صوبوں کی بہت طاقتور روایتی اور تجربہ کار سیاستدانوں کے علاوہ بڑی بڑی شخصیات شامل ہوں گی ۔ جس کے پاس جادو کی چھڑی بھی ہو گی جس کا ایک چہرہ عوام کے سامنے ہوگا دوسرا عقب میں ۔۔ لہٰذا سب مل کر اس پاگل و دیوانے شخص کو پاکستانی سیاست کا غیر ضروری عنصر بنانے کے لئے وہ وہ پینترے ‘ چالیں اور تراکیب استعمال میں لائے جائیں گے جو اس سے پہلے نہ کسی نے سنے ہوں گے نہ دیکھے ہوں گے ۔
وہ سر پھرا اس زعم باطل میں مبتلا تھا کہ اسے کروڑوں عوام کی محبت و عقیدت وتائید حاصل ہے ۔ کیا اس نے تاریخ پاکستان کا یہ صفحہ نہیں پڑھا جس میں ایک سیاستدان کو ایسے ہی کرڑوں عوام کی تائید و حمایت حاصل تھی ۔۔ اس نے طاقتور حلقوں کی بڑی منت سماجت کی کہ دیکھو ‘ مجھے دیوار سے نہ لگائو عوامی طاقت کے سامنے کوئی ٹھہر نہیں سکتا ۔ لیکن افسوس کہ اس بے چارے کی کسی نے ایک نہ سنی اور پھر مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان والی زنجیر ٹوٹ گئی اور سانحہ 1971ء رونما ہوا ۔ بدقسمتی سے اس وقت کوئی آئین نہیں تھا ‘ مارشل لاء کی حکومت تھی اب تو خیر سے 1973ء کا آئین موجود ہے ‘ جس پر اس کے بنانے کے دعویدار فخر کرتے نہیں تھکتے لیکن افسوس اور بدقسمتی ملاحظہ کیجئے کہ اس کی صاف اور واضح شقوں پر عمل کرنے سے تیرہ کی تیرہ پارٹیاںکنی کتراتی ہیں ۔۔ کتنی اچھی بات ہوتی کہ پنجاب اور کے پی اسمبلیوں کی تحلیل کے 90 دن کے اندر انتخابات ہوجاتے تو 9مئی کا سانحہ نہ دیکھنا پڑتا۔
ہر باشعور پاکستانی کو اس پر افسوس ہے کہ پاکستانی تاریخ سیاست میں پہلی دفعہ عوام نے پرائیویٹ اور فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا ‘ لیکن سچی بات یہ ہے کہ اس میں ایک دفعہ پھر ہم سب مورد الزام ٹھہرتے ہیں۔۔ کوئی دل پر ہاتھ رکھ کر بتائے کہ کیا اس سے پہلے کسی سابق وزیر اعظم کو اس انداز میں گرفتار کیا گیا ہے ‘ طرفہ تماشا یہ کہ فاضل عدالت کے اندر بغیر وارنٹ گرفتاری کے پولیس کے کمانڈوز ‘ رینجرز کی وردیوں میں عدالت کے شیشے توڑتے ایک معزز شخص پر یوں جھپٹے ہیں کہ گویا آج ہی عقاب کو فاختہ ملی ہے ۔ فاضل عدالت کے فاضل چیف جسٹس کے فیصلے پر صدقے واری ہونے کو جی چاہتا ہے کہ ایک طرف سیکرٹری داخلہ اور ایڈیشنل آئی جی کو توہین عدالت کے نوٹسز صادر کرتے ہیں اور دوسری طرف بغیر وارنٹ کے گرفتاری کو قانونی قرار دیتے ہیں۔ یہ بھی ہماری سیاسی تاریخ کاایک نیا چوراہا ہے کہ ساڑھے تین برس کی حکومت سے ”سرپھرے” کو گرفتار کرنے کے لئے صرف القادر ٹرسٹ اور توشہ خانہ ہی ہاتھ آسکے ۔ نہیں یار ۔۔ مزہ نہیں آیا کیونکہ اس شخص میں ہزار کمی کوتاہیاں ہوسکتی ہیں لیکن دشمن بھی کہے گا کہ کرپشن اس کے قریب سے بھی نہیں گزری ہے ۔ اس کو اگر رقم کی ضرورت پڑ گئی تو اربوں روپے چٹکیوں میں کما سکتا ہے ۔۔ ہاں یہ بات صحیح ہے کہ ان سے بیسیوں سیاسی بلنڈرز ضرور ہوئے ہیں جس کا خمیازہ اب بھگتے گا۔
اس وقت پاکستان ایک خطرناک چوراہے پر کھڑا ہے ایک طرف ڈیفالٹ کا خطرہ ہے بلکہ ہمارے وزیر دفاع تو کب کا اعلان کر چکے ہیں ۔ دوسری طرف اتحادی حکومت میں وطن عزیز کو اس بحران سے نکالنے کی صلاحیت سرے سے ہی نہیں۔ تیسری طرف عوام کی تائید وحمایت سے مالا مال سیاست دان کو جس غیر قانونی انداز میں گرفتار کرایا گیا اس پر عوام آپے سے باہر ہے ‘ ان کی آنکھوں میں خون اترا ہوا ہے اور اپنے رہنما کی غیر موجودگی میں مزید نقصانات اور توڑ پھوڑ اور غیر قانونی اقدامات کے خطرات لاحق ہیں۔ چوتھا اہم نکتہ اس وقت یہ ہے کہ پاک افواج جتنا جلدی عوام کو یہ اعتماد دلائے کہ وہ واقعی غیر جانبدار ہیں اور یہ قومی افواج ہیں۔ اور سارے عوام کی مشترک فوج ہے عمران خان کی رینجرز کے ہاتھوں گرفتاری اور اس کے بعد آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز نے یہ بات اخذ کرنے پرمجبور کیا کہ ان کے لیڈر کی گرفتاری میںجرنیلی ہاتھ بھی شامل ہے لہٰذاضرورت اس بات کی ہے کہ وطن عزیز کو مزید نقصانات سے محفوظ رکھنے کے لئے سپریم کورٹ کے چودہ مئی کے فیصلے پر عمل درآمد کرانے کے انتظامات کئے جائیں اور غیر جانبدار و شفاف انتخابات کرا کے عوام کے ساتھ اپنے تعلق کو اس نہج پر لے جایا جانے کے اقدامات کریں جو محبت و عقیدت پر مشتمل تھا ۔ قومی سیاسی رہنمائوں کو بھی چاہئے کہ جو ہوچکا ‘ سو ہوچکا اس میں سب برابر کے ذمہ دار ہیں ۔ کوئی کم کوئی زیادہ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ چارہ دست سارے سیاستدانوں کو ایک چھت تلے بٹھا کر ان کو شفاف انتخابات اور اس کے نتیجے میں بننے والی حکومت کے حوالے سے ٹی او آرز پر متفق کرانے کی ذمہ داری نبھائیں تاکہ ملک انتشار کی اس کیفیت سے نکل آئے۔

مزید پڑھیں:  فیض آباد دھرنا ، نیا پنڈورہ باکس