پشاورہائی کورٹ بار کے صدر طارق آفریدی ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ وکلاء کسی سیاسی پارٹی کے مقاصد کے لئے استعمال نہیں ہوں گے گزشتہ روزمیڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت ہمیں اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم آئین اور قانون کی بالادستی کا ساتھ دیں ‘ اور اداروں کو مضبوط کریں گزشتہ روز پشاور ہائی کورٹ میں کسی قسم کی ہڑتال نہیں کی گئی اور وکلاء معمول کے مطابق اپنے کیسوں کی پیروی کرتے رہے ہائی کورٹ بار کے صدر نے کہا کہ اس ضمن میں تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا گیا اور کابینہ کی مشاورت ‘ خیبر پختونخوا بارکونسل اور پاکستان بار کونسل سے رابطہ کے بعد اس بات کا فیصلہ کیاگیا کہ کسی بھی سیاسی مسئلے پر عدالتوں کے بائیکاٹ کا اعلان نہیں کیا جائے گا۔اور اگر کوئی آئینی مسئلہ ہو گا تو مشاورت کی جائے گی ‘انہوں نے وکلاء پر زور دیا کہ وہ آئین کی بالادستی کے لئے ہر فورم پر آواز اٹھائیں اور کسی بھی غیر آئینی کام کا ڈٹ کر مقابلہ کریں انہوں نے کہا کہ وکلاء کامفاد تمام سیاسی مفاد سے بالاتر رکھا جا رہا ہے اور وکلا ہی اس ملک کو بچانے کے لئے پہلے بھی میدان میں تھے اور اب بھی ہیں مگر کسی سیاسی مسئلے کے لئے وکلاء کو استعمال نہیں کیا جائے گا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ وکلاء کسی بھی معاشرے میں ان طبقات میں شامل ہوتے ہیں جنہیں سب سے زیادہ پڑھے لکھے اور دانشمند طبقوں میں شمار کیا جاتا ہے ‘ چونکہ وکلاء کا تعلق آئین اور قانون کی پاسداری سے ہوتا ہے اس لئے دوسرے پڑھے لکھے اور عام عوام کی نسبت ان سے قانون کی حکمرانی میں غیر جانبدارانہ کردار کی زیادہ توقع کی جاتی ہے ‘ بدقسمتی سے مگر یہ ہے کہ بعض اوقات وہ وکلاء جن کا تعلق ملک کی مختلف سیاسی جماعتوں کے ساتھ ہوتا ہے ‘ اپنی پارٹی پالیسیوں کی وجہ سے آئین و قانون کی پاسداری اور وکلاء تنظیموں کے مقاصد کے علی الرغم جانبداری سے مملو ہوتا دکھائی دیتا ہے اور سیاسی معاملات کی وجہ سے وکلاء کے اندر بھی تقسیم در تقسیم کی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے ‘ اب جبکہ پشاور ہائی کورٹ بار نے اصولی طور پر طے کر لیا ہے کہ وہ سیاسی معاملات میں مداخلت سے ہاتھ کھینچ کر عدالتوں کے بائیکاٹ سے احتراز کی پالیسی پر عمل کی جائے گی تو امید ہے کہ اس کے مثبت نتائج برآمد ہں گے اور پہلے ہی سے عدالتوں کے اندر کئی کئی سال سے زیر التواء مقدمات میں ہڑتالوں کی وجہ سے وکلاء مزید تاخیر میں کوئی کردار ادا نہیں کریں گے جو ایک مثبت طرز فکر کی نشاندہی کرتی ہے ۔
