خامہ انگشت بدنداں۔۔۔؟

سپریم کورٹ کی جانب سے تحریک ا نصاف کے سربراہ سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دینے اور اس ضمن میں چیف جسٹس کی جانب سے جو ریمارکس سامنے آئے ہیں ان پر بھی سیاسی حلقوں کی جانب سے حیرت کا اظہار کیا جارہا ہے ‘ وفاقی وزراء خواجہ آصف اور وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے جو تبصرے کئے ہیں ان میں سنجیدہ سوالات کی جھلک نظر آتی ہے ‘ خواجہ آصف نے کہا کہ نواز شریف ‘ زرداری سمیت دیگر سیاستدانوں کو یہ حسن سلوک کیوں نہیں ملا؟ ہمارے دور میں 90 روز کا ریمانڈ تھا کسی کو خیال نہیں آیا ‘ مریم اورنگزیب نے کہا کہ سرکاری املاک’ سکول ‘ مساجد ‘ ہسپتال ‘ ایمبولینس جلانے ‘ شہداء اور غازیوں کی یادگاروں کی بے حرمتی پر انصاف کون دے گا ‘ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے عمران خان کو ان کے تمام جرائم کو دیکھتے ہوئے بھی سہولت کاری کی ‘ انہوں نے کہا کہ 60ارب روپے کے غبن میں ملوث ملزم کو چیف جسٹس کہتا ہے کہ آپ کے آنے سے خوشی ہوئی ‘ انہوں نے کہا کہ سب کچھ سامنے آچکا ہے ‘ مالی جرائم ‘ دہشت گردی کرنے والوں پر شفقت کی جارہی ہے ‘ یہ جانبداری نہیں تو اور کیاہے ادھر پیشی کے دوران فاضل جج اطہر من اللہ کے ان ریمارکس پر کہ کارکنان نے جو کچھ کیا اس کے ذمہ دار آپ (عمران خان) ہیں ‘ ایک لیڈر کس طرح اپنے کارکنان کے عمل سے لاتعلق ہو سکتا ہے ‘ آپ لوگوں کو روکیں ‘ تحریک کے رہنماء نے کہا مجھے نہیںمعلوم باہر کیا ہو رہا ہے ‘ لوگوں کو روکنے کی کوشش کروںگا۔ ان واقعات کے حوالے سے صدر مملکت عارف علوی نے وزیر اعظم کو ایک خط تحریر کیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں جبر اور گرفتاریوں کی بجائے دوبارہ سوچنا چاہئے اور سیاسی حل تلاش کرنا چاہئے ‘ جس انداز میں عمران خان کی گرفتاری عمل میں لائی گئی اس سے عالمی برادری میں پاکستان کا تاثر داغدار ہوا ‘ صدر نے کہا کہ اس قسم کا واقعہ کسی کے ساتھ نہیں ہونا چاہئے ‘ صدر مملکت نے بالکل درست کہا ہے کہ ایسا واقعہ کسی کے ساتھ نہیں ہونا چاہئے تاہم اس حوالے سے عمران خان کی گرفتاری کے حوالے سے جوتجزیئے اور تبصرے گزشتہ دو دنوں سے میڈیا پر سامنے آتے رہے ہیں اور عدالتی احاطے سے کسی ملزم کی گرفتاری پر اعتراضات کئے جارہے ہیں ان میں یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ عمران خان کو تو عدالت سے ملحق بائیو میٹرک سسٹم والے کمرے سے گرفتار کیا گیا جبکہ نون لیگ کے ایک رہنما حنیف عباسی کو تو شنوائی کے دوران عدالت کے اندر سے گرفتار کیاگیا اور گھسیٹ کر بکتر بند گاڑی میں ڈالا گیا اس وقت نہ تو کسی کو قاعدے کی یاد آئی نہ عدالت کوکسی اپنی ”توہین” کا احساس ہوا ‘ اسی طرح کے مزید کچھ واقعات بھی ہماری عدالتی تاریخ کا حصہ ہیں جہاں تک صدر مملکت کے بقول اس واقعے سے عالمی برادری میں پاکستان کا تاثر داغدارہونے کی بات ہے تو کیا صدرمحترم اس وقت کو یاد کریں گے جب ایک مقدمے میں پانامہ کے اندر سے اقامہ نکالنے کے دوران تین بار کے منتخب وزیر اعظم کونااہلی کی سزاسنائی گئی اور گزشتہ پونے چار سالہ سابق حکومت کے دور میں سیاسی رہنمائوں کو جبر و تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے ان کو لمبے عرصے کے لئے نیب کے قوانین کے تحت سلاخوں کے نہ صرف پیچھے دھکیلا گیا بلکہ ان کی ضمانتیں تک نہیں ہونے دی جاتی تھیں’ اس حوالے سے اردو کے ایک محاورے کے مطابق ”جس تن لاگے سو تن جانے” کے مصداق صدر مملکت کو آج یہ سب کچھ یاد آنے کی وجہ بھی عوام بہت اچھی طرح جانتے ہیں ‘ اس ساری صورتحال میں سب سے اہم گزشتہ روز سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے سے بھی تقریباً ڈیڑھ دو گھنٹے پہلے مقدمے کے فیصلے کے حوالے سے سامنے آنے والی آڈیو میں تما م تر صورتحال کی ہو بہو تفصیل کے بعد عدالت سے اسی فیصلے پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں۔ جہاں تک عمران خان کو ایک رات کے لئے پولیس گیسٹ ہائوس میں سرکاری مہمان بنانے کے حکم کا تعلق ہے تو تجزیہ کار اسے بھی مبینہ سہولت گردانتے ہیں یعنی سپریم کورٹ نے ایسا کرکے عمران خان کی کسی اور مقدمے میں ممکنہ گرفتاری کی راہ بند کر دی تھی ‘ اور سوال اٹھایا جارہا ہے کہ کیا ایسی سہولت کسی اور کو اس سے پہلے دی جا چکی ہے یا مستقبل میں کسی اور کو ایسی آسانیاں فراہم کی جائیں گی؟ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ عدالت نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیشی کے دوران عمران خان کوجتھے لانے کی ممانعت کر دی تھی مگر تازہ ترین اطلاعات کے مطابق تحریک انصاف نے ملک بھر سے اپنے کارکنوں کو اسلام آباد پہنچنے کی جو ہدایات جاری کی ہیں کیا یہ سپریم کورٹ کی ہدایات کی کھلم کھلا خلاف ورزی نہیں ہے ؟ ملک میں افراتفری اور ہنگامہ آرائی کی کارروائیوں سے بہت نقصان ہو چکا ہے ‘ اس صورتحال کا بھی عدالت عظمیٰ کو نوٹس لینا چاہئے تاکہ امن و امان کے قیام کو ممکن بنایا جا سکے۔

مزید پڑھیں:  رموز مملکت خویش خسروان دانند