” تم کوئی اچھا سا رکھ لو اپنے ویرانے کا نام”

ملک میں سیاسی بحران جوں جوں سنگین اور لاینحل ہوتا جا رہا ہے اسی انداز سے معاشی بحران بھی قابو سے باہر ہور ہا ہے ۔عمران خان کی گرفتاری کے بعد پیش آنے والے حالات نے ملک کے دونوں بحرانوں کو مزید بڑھا دیا ہے۔دو دن میں ڈالر کی قیمت چودہ روپے بڑھ گئی ہے جس کے بعدڈالر کی قیمت 299روپے ہوگئی جبکہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت تین سو روپے سے تجاوز کرگئی۔شکر ہے اب ڈالر گرنا شروع ہو گیا ہے ایک طرف سیاسی بحران سے پیدا ہونے والی غیر یقینی تو دوسری جانب آئی ایم ایف کی جانب سے سترہ مئی کے ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں پاکستان کے معاملات کو ایجنڈے میں شامل نہیں کیا گیا جس نے غیر یقینی کو مزید بڑھا دیا ہے ۔وزیرخزانہ اسحاق ڈار جو بہت ارمانوں او ردعوؤں کے ساتھ ایک خصوصی پروٹوکو ل کے تحت بیمار معیشت کے مسیحا کے طور پر ملک میں اُترے تھے اب صرف قوم کو یہ تسلی دینے پر مامور رہ گئے ہیں کہ ملک ڈیفالٹ نہیں کرے گا ۔اس بار بھی ان کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف سے قسط آئے یا نہ آئے مگر ملک ڈیفالٹ نہیں کرے گا۔چند دن قبل موڈیز نے پاکستان کے ڈیفالٹ کرجانے کا خدشہ ظاہر کیا تھا ۔پاکستان رسمی طور ڈیفالٹ ہویا نہ ہو اس سے کیا فرق پڑتا ہے ۔اس وقت پاکستان جس معاشی تنزل کا شکار ہے اور اس کے مضر اثرات جس طرح عام آدمی پر پڑرہے ہیںاسے بھلے سے ڈیفالٹ نہ کہا جائے اور اسحق ڈار اس کیفیت کے لئے کوئی اچھا سا نام اور عنوان تجویز کریں ۔ بقول شاعر
ہم سے کہتے ہیں چمن والے ،غریبان ِ چمن
تم کوئی اچھا سا رکھ لو اپنے ویرانے کا نام
ملک میں ڈالر کی بلند پروازی کا سفر اسحق ڈار کی آمد کے باوجود ایک لمحے کو رکنے نہیں پایا یہ وہی اسحق ڈار جن کے بارے میںگزشتہ دور میں ڈالر کی قیمت میں معمولی اضافہ ہوتے ہی میڈیا کے بزر جمہر پاکستانی عوام کو طنزیہ طور پرکہتے تھے کہ اسحق ڈار کی یاد تو آتی ہوگی ناں”۔اب تو اسحق ڈار کی یاد آتی ہی نہیں بلکہ دل ودماغ سے جاتی ہی نہیں کیونکہ جب کسی شہری کو صبح مارکیٹ جانے کا خیال آتا ہے تو اس تصور سے ہی ہول اُٹھتے ہیں اور اسحٰق ڈار بھی اس کے ساتھ ہی بے ساختہ یاد آتے ہیں مگر مجال ہے میڈیا کو مارکیٹوں میں جا کر یہ پوچھنا یاد رہا ہو کہ لوگ کس حال میں جی رہے ہیں اور حکمرانوں کو کس انداز سے یاد کر رہے ہیں ۔یوں لگتا ہے کہ ملک کی معیشت کے بگڑنے کی کسی کو فکر ہی نہیں اور المیہ یہ ہے کہ ملکی معیشت کے اکثر فیصلہ ساز غیر ملکی شہریت کے حامل ہیں اور ان کی جائیدادوں اور اثاثوں کا بڑ احصہ باہر کے ملکوں میں ہے ۔اس طرح جب ملک میں ڈالر کی قیمت گرتی ہے تو بطور پاکستانی ان مہربانوں کے اثاثوں کی قدر میں خود بخود اضافہ ہوتا ہے ۔روپے کی مٹی پلید ہونے اور ڈالر کی عزت افزائی کا سارا ملبہ غریب اور مفلوک الحال شہری پر پڑتا ہے اور اسی کھیل میں لاکھوں کروڑوں پاکستانی خط ِغربت سے نیچے جا چکے ہیں ۔عام آدمی کی آمدن ٹھہر کر رہ گئی ہے مگر اس کے اخراجات میں کئی سو گنا اضافہ ہوگیا ہے یوں آمدن اور اخراجات کے بدترین عدم توازن نے معیشت کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ان حالات میں پاکستان کے حالات سے مایوس ہو کر لوگ باہر کی دنیا کی راہ لینے پر مجبو رہیں اور موقع ملتے ہی لوگ ملک چھوڑ کر جارہے ہیں ۔خانہ جنگی اور افراتفری و غیر یقینی کا شکار ملکوں میں لوگ اسی طرح بیرون ملکوں کو بھاگ نکلنے کی تدبیریں سوچتے اور ان پر عمل کرتے ہیں ۔آج کے حالات میں سب سے اچھا کاروبار اگر کسی طبقے کا ہے تو وہ بیرون ملک ویزے کاکام کرنے والے کنسلٹنٹس کا ہے ۔جن سے لوگ باہر نکلنے کے لئے ویزے کے حصول کے مشور ے پوچھتے ہیں ۔یہ مایوسی اور ہیجان بے سبب نہیں ۔یہ عمل خاموشی سے کئی دہائیوں سے جاری تھا مگر اب تو اس میں غیر معمولی تیزی آگئی ہے ۔ڈیڑھ سال پہلے کابل پر طالبان کے کنٹرول کے بعد جو مناظر کابل ائر پورٹ پر دیکھے گئے تھے موقع ملے اور پاکستانیوں کو اس انداز سے ملک سے بہ آسانی نکل جانے کا یقین ہو تو پاکستان کے ائر پورٹس پر بھی یہی مناظر دیکھنے کو ملیں ۔اس کی وجہ یہ کہ عام آدمی کا ریاست کی صلاحیت پر اعتماد باقی نہیں رہی ۔جس نے غیر یقینی کو بڑھا دیا ہے ۔لوگ حفظ ِ ماتقدم کے طور پر اپنے بچوں کے لئے دوسرا آپشن رکھنا چاہتے ہیں۔ملک کی یہ دُرگت ایک روز میں نہیں بنی نوے کی دہائی سے پاکستان معاشی زوال کی راہوں پر تیزی لڑھکتا چلا گیا اور اسی دور میں بدعنوانی منی لانڈرنگ اور کمیشن کوفن اور فضلِ ر بی کے معانی پہنا دئیے گئے ۔اس کے بعد سے پاکستان میں عارضی سدھار جنرل مشرف نے لایا وہ بھی اس لئے کہ انہوںنے افغانستان کی جنگ کی گلہاڑی اپنے کندھے پر سجالی تھی ۔مشرف کے جاتے ہی ان کی معاشی خوش حالی بھی غتر بود ہو گئی ۔موبائلوں اور ریفریجریٹرز کی فروخت کو معاشی خوش حالی کے مصداق سمجھے والے جنرل مشرف ایک تماشا دکھا کر رخصت ہوگئے اور پھر نوے کی دہائی کا گھن چکر دوبارہ شروع ہوگیا مگر اس بار میں اس میں میثاق جمہوریت کا جیو اور جینے دو کامصالحانہ اور برادارانہ رنگ غالب تھا ۔نوے کی دہائی تو لڑتے بھڑتے سارے کام ہو گئے تھے۔اب جو سیاسی اور معاشی بحران ملک کی جڑوں میں سرایت کر گئے ہیں۔ ان کے خاتمے کی امید باقی نہیں رہی، حد تو یہ ہے کہ ملک کو اس صورت حال سے نکالنے کی سوچ کہیں دکھائی نہیں دے رہی ۔سیاسی بحران کو ختم کرکے معاشی بے یقینی کو کم کیا جا سکتا ہے مگر حکمران انتخابات کے نام سے بِدکتے ہیں اور ملک کے دوصوبے پنجاب اور خیبر پختون خوا کے عوام اس وقت منتخب قیادت چننے کے لئے حق ِ رائے دہی سے محروم ہیں ۔حق رائے دہی اظہار ذات اور اظہار رائے سے تعلق رکھتا ہے اور اس حق کے لئے نہ ملنے کا نتیجہ معاشرے میں شدید گھٹن اور فرسٹریشن کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔جو وسائل انتخابات کو ٹالنے کے لئے صرف کئے جا رہے ہیں اگر انتخابات کے انعقاد پر لگائے جاتے تو آج شاید ملک میں جمہوریت یوں ڈول رہی ہوتی او رمعیشت یوں لڑکھڑا نہ رہی ہوتی ۔ایسا بھی نہیں کہ انتخابات ہوتے ہی سب کچھ بدل کر رہ جائے گا اور ملک میں معاشی خوش حالی کا دور دورہ ہوگا مگر اس سے غیر یقینی کے سائے کم ہو ں گے اور لوگ خود کو سسٹم کے اندر سٹیک ہولڈر سمجھنے لگیں گے۔سوال تو یہ بھی پیدا ہوتا کہ انتخابات کیوں نہیں ؟اگر ملک ایک آئین کے تحت چلنا ہے تو انتخابات سے فرار کا کوئی تصور نہیں ہونا چاہئے ۔ٹینکو کریٹس کے پاس کونسی جادو کی چھڑی ہے جو اسحٰق ڈار کے پاس نہیں۔اگر ایسی کوئی چھڑی ہے تو بہتر تو یہ ہے کہ وہ آئی ایم ایف کے کسی ملازم اور پسندیدہ ٹینکو کریٹ وزیر خزانہ کی بجائے اسحق ڈار کو ہی تھمادی جائے مگر ایسا کچھ نہیں مقصد صرف لمحہ ٔ موجود سے نظریں چرانا ہے۔

مزید پڑھیں:  جگر پیوند کاری اور بون میرو ٹرانسپلانٹ سنٹرز کا قیام