مشرقیات

باہمی معاملات اور لین دین میں امانت داری کا مظاہرہ کرنا اور دیانت داری کا دامن تھامے رکھنا شریعت اسلام کی اہم ترین تعلیمات میں سے ہے۔ امانت داری صرف اخلاقیات ہی نہیں، بلکہ ایمانیات کا بھی حصہ ہے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس شخص کے ایمان کا کوئی اعتبار نہیں جس میں امانت داری نہیں۔ یعنی اگر کوئی شخص کسی معاملے میں کسی پر بھروسہ کرے اور جس پر بھروسہ کیا گیا ہے وہ اس کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس کے ایمان میں ابھی نقص ہے اور وہ درجہ کمال تک نہیں پہنچا۔
نبی کریمۖ کی سیر ت طیبہ اور حیات مبارکہ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپۖ کی ذات بابرکات میں امانت داری کا وصف بہت نمایاں تھا، آپۖ پورے مکہ میں صادق اور امین کے عالی القابات سے پکارے جاتے تھے، مشرکین آپۖ سے شدید ترین اختلافات کے باوجود اپنی امانتیں آپ کے پاس رکھواتے تھے، حالاں کہ مکہ کا سردار ابو جہل تھا، لیکن اہل مکہ کا اعتماد ابوجہل کے بجائے نبی کریمۖ پر تھا۔ کیوں کہ ابو جہل کی بددیانتی کے قصے سارے شہر میں زبان زد عام تھے۔
دیانت داری پر قیامت کے دن سرخروئی اور جنت کی نعمتیں تو یقینا حاصل ہوں گی، لیکن اس عظیم وصف کا حامل ہونے اور اس عمدہ خصلت کا خوگر ہونے کی بدولت دنیا میں بھی اللہ تعالی ایمان دار شخص کو بہت سے فوائد اور ثمرات سے نوازتا ہے۔ ایسے شخص کو اللہ تعالی دنیا والوں کی نگاہ میں بلند مرتبہ کرتے ہیں اور ہر کوئی اس کی عزت و تکریم کرتا ہے، ہر طرف اس کی نیک نامی کے چرچے ہوتے ہیں، ایمان دار شخص کے رزق میں برکت ہوتی ہے اوراس کا کاروبار پھلتا اور پھولتا ہے۔ سب سے بڑا فائدہ یہ حاصل ہوتا ہے کہ اس کا اور اس کی اولاد کا پیٹ حرام غذا کی پرورش پانے سے بچ جاتا ہے۔ امانت داری کا مظاہرہ کرنے میں خدمت ِ خلق کا پہلو بھی مضمر ہے، جو بذات خود ایک بڑی عبادت ہے، جس سے خدا ملتا ہے، اس لیے کہ ہر شخص کی ضرورت ہے کہ بامر مجبوری اپنی چیز دوسرے کے پاس رکھے اور پھر اس کی امانت اس تک بحفاظت اور اسی معیار اور اتنی مقدار میں پہنچے جیسے اس نے رکھوائی تھی، لہٰذا جو شخص لوگوں کی یہ ضرورت پوری کر رہا ہے وہ ایمان داری پر ملنے والے ثواب کے ساتھ ساتھ خدمتِ انسانیت کا اجر بھی حاصل کر رہا ہے۔
جو شخص اس اہم دینی تعلیم اور اسلامی ہدایت کو نظر انداز کر دے اور بددیانتی اور کرپشن کو اپنا شعار بنا لے اسے دنیا اور آخرت میں بہت سے نقصانات اٹھانے پڑتے ہیں۔ دنیوی نقصان یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کا اعتماد اٹھ جانے کے باعث اس کا کاروبار اور روزگار بری طرح متاثر ہوتا ہے، خود کو اور اہل و عیال کو حرام کھلانے کی وجہ سے رزق سے برکت اٹھ جاتی ہے۔ لوگ اپنی ذاتی مجبوریوں کی وجہ سے اور اس کے شر سے بچنے کے لیے منہ پر چاہے عزت کریں لیکن پیٹھ پیچھے ہر زبان پر اس کی برائی ہوتی ہے۔ ایسی بدنامی گلے پڑتی ہے کہ مرنے کے بعد بھی کوئی اچھے الفاظ میں اس کا ذکر نہیں کرتا۔

مزید پڑھیں:  کہ دیکھنا ہی نہیں ہم کو سوچنا بھی ہے