کئی زمانوں پہلے مشہور یونانی فلاسفر سقراط نے کہا تھا کہ تعلیم کا مقصد ذہنوں میں پیدا ہوتے شعلوں کا بھڑکانا ہے نہ کہ فقط برتنوں کو بھرنا۔ سقراط نے صدیوں پہلے ہی انتہائی عام فہم الفاظ میں تعلیم کے اصل تصور کو واضح کر دیا تھا کہ در حقیقت تعلیم کا مقصد، فہم و دانست ، شعور اور سوچ و بچار کرنے کی صلاحیتوں کو ابھارنا ہے چونکہ ہر فرد میں کچھ نہ کچھ انفرادی خوبیاں موجود ہوتی ہیں، ساز گار ماحول میں تعلیم و تربیت کے ذریعے ان انفرادی خوبیوں کو تراشا جاسکتا ہے جس سے کوئی بھی فرد اپنی صلاحیتوں کے مطابق خود اپنی ذات کے لئے اور معاشرے کیلئے مثل قندیل ثابت ہوتا ہے، سقراط کے اس قول کو مغربی ریاستوں نے تو من و عن تسلیم کر لیا اور کونسیپچول (تصوراتی) تعلیم کا وہ نظام رائج کیا جس سے ان کی ایجادات نے دنیا کو ششدر کر دیا اور تمام ریاستوں بالخصوص عالم اسلام کو جن کا مذہب شروع ہی ”اقرا” (پڑھو) سے ہوتا ہے جن کو بارہا مقدس کتاب قرآن میں قدرت کے قوانین پر معقولیت کی دعوت دی گئی ہے، مغرب نے اپنا مرعوب بنالیا پاکستان جیسے ملک میں تو اس مرعوبیت نے مریدیت کا روپ دھار لیا تو اب یہاں انگریزی زبان کو بجائے کہ گفت و شنید کے استعمال کئے جانے اور اس میں موجود علم سے فائدہ اٹھانے کے”اسٹیٹس سیمبل” بنا ڈالا ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں زبانوں کو لے کر ہمیشہ ہی شدت پسندانہ رویہ رہا ہے ، کبھی بنگالی، کبھی پشتو، کبھی سندھی تو کبھی اردو زبان معاشرے کی تقسیم اور تنازعے کی وجہ بنی رہی ہیں تاہم اب ماڈرن زمانے میں یہ تقسیم اور انتشار صوبائی یا علاقائی زبانوں کے بجائے کلاس سسٹم کے طور پر اب اردو اور انگریزی کو ایک آلے کے طور استعمال کئے جانے کی وجہ سے ہے، انگریزی کی اہمیت سے مجھے کوئی انکار نہیں، عالمی طور پر بولے جانے والی زبان ہے جبکہ جدید علم کا بیشتر حصہ اس ہی زبان پر مشتمل ہے لیکن کیا اپنی مادری زبان کی اس قدر تذلیل درست ہے کہ طالب علموں کو اردو بولنے کے جرم کی پادش میں منہ پر سیاہی لگا کر ان کو درس گاہ میں نشان عبرت بنا کر گھمایا جائے؟ کیا قومیں ایسے ترقی کرتی ہیں جب وہ اس حد تک احساس کمتری کا شکار ہو جائیں کہ وہ اپنی شناخت کو ہی حقیر محسوس کرنے لگیں؟ اس کمتر ہونے کے احساس کی بڑی وجہ ہمارے تعلیمی نظام کا تین بڑے حصوں میں تقسیم ہونا بھی ہے، جہاں سرکاری درسگاہوں کا پست ترین معیار تعلیم، پھر نجی ادراوں میں واجبی سے معیار تعلیم کی فراہمی پر ان بچوں میں احساس محرومی کا پروان چڑھنا عام ہوجاتا ہے تو دوسری طرف مہنگے ترین اداروں میں یا بیرون ملک سے ڈگری لینے والوں میں مغرب کے ماڈرن ازم کو لے کر جو حسرت پیدا ہوتی ہے وہ ان کو ایسی کشمکش کا شکار کرتی ہے جس سے وہ اپنے ہی لوگوں پر برتری کے احساس کو اتنا بڑھا دیتے ہیں کہ صرف معاشرے میں تفرق اور تفاوت چل پڑتا ہے جس میں محض انگریزی زبان بولے جانے کی صلاحیت کو ہی عقل و دانش کی معراج سمجھا جاتا ہے جس معاشرے میں سوچ کا دھارا محض زبان اور اس کے تلفظ کی ادائیگی پر ہی رہ جائے تو وہاں کیا ہم یہ سوچ سکتے ہیں کہ ایسے دانشور پیدا ہونگے جو دنیا کو چونکا دینگے؟
تعلیم کہ شعبے میں یہ تو وہ معاشرتی درد ناک پہلو تھا جس میں ، میں اور آپ برابر کے شریک ہیں تاہم اس کا ایک اور سنگین ترین پہلو حکومتی ذمہ داروں کی مجرمانہ غفلتیں ہیں، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان میں40 فیصد سے زائد پانچ سال اور اس سے کم عمر کے بچے غذائی کمی کا شکار ہیں جبکہ 2.5 ملین بچے ”غذائیت کی شدید کمی” کا شکار ہیں ایسے بچے عموما ”کوجنیٹو ڈویلیمنٹ” کے مرض میں مبتلا ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان میں غور و فکر اور استدلال کرنے کی صلاحیت میں کمی آجاتی ہے، عام طور پر6 سے12سال کے بچوں میں ذہنی نشوونما کا عمل تیزی سے ہو رہا ہوتا ہے ان کا دماغ نئی نئی چیزوں کو سیکھ رہا ہوتا ہے اور ان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اس عمر میں پروان چڑھ رہی ہوتی ہے، غذائی نشوونما اور خاص طور پر آ ئیوڈین کی کمی ذہنی عواض کی سب سے عام وجہ بنتی ہے، اس کی کمی سے آئی کیو لیول کے10 سے15 پوائنٹس کم ہو جاتے ہیں، ستم ظریفی دیکھئے کہ غذائی قلت کا شکار بچے جو عموماً ذہنی طور پر بھی کمزور ہو جاتے ہیں، پھر ہمارے امیر اور غریب کے درمیان بٹے ہوئے نظام تعلیم میں واجبی سی تعلیم جس میں انہیں کسی طرح کا ہنر نہیں سکھایا جاتا اور نہ ہی ان کی انفرادی خوبی کو تراشا جاتا ہے حاصل کر کے اعتماد کی کمی اور مالی مسائل کی بچھاڑ لئے جب یہ نوجوان معاشی میدان میں قدم رکھتے ہیں تو بری طرح دھتکار دیئے جاتے ہیں، ایسے میں محض بے حد جسمانی محنت کر کے گزارے لائق کما لینا ہی ان کے لئے کٹھن ہو جاتا ہے، ذرا سوچیں! اگر ایسے ہی پاکستان میں موجود65 فیصد نوجوانوں پر مشتمل آبادی کے ساتھ یہی سلوک روا رکھا گیا تو کیا ہمیں یہ امید ہے کہ یہاں سے کوئی سائنس، آئی ٹی، دانشوری یا کسی بھی ہنر کے شعبے میں دنیا کو متوجہ کر پائے گا؟ ان مسائل کے ساتھ بے تحاشا اور مسائل ہیں جن میں شدید غربت، روایتی غیر فعال نصاب کی بھرمار، اساتذہ کا نامناسب رویہ اور غیر تربیت یافتہ ہونا، مخصوص شعبوں کو ہی معتبر سمجھنا، مواقع کی کمی، دیہی علاقوں میں تعلیم تک رسائی کا فقدان، فنڈز کی ناکافی فراہمی، صنفی عدم مساوات اور تعلیم کا ناقص معیار اور کیئریر کانسلنگ کا نہ ہونا وغیرہ شامل ہیں۔
قوموں کی ترقی اور بلندی کیلئے معیاری تعلیم جسم میں گردش خون کی سی حیثیت رکھتی ہے، آج پاکستان جس انتشار کا شکار ہے اس کیلئے ہنگامی بنیادوں پر بہت سے اہم اقدامات کی ضرورت ہے جس میں طویل مدتی پلان میں تعلیم کو سرفہرست رکھنا ضروری ہے، چونکہ پاکستان کو ناقص معیار تعلیم سے باقی ریاستوں کے مقابلے میں زیادہ خطرہ اس لئے لاحق ہے کیونکہ ہماری آبادی کا نصف سے بھی زائد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے، ذرا تصور کر کے دیکھیں کہ اگر ان نوجوانوں کو اس ہی معاشرتی کشمکش میں بنا کسی تعلیم و تربیت اور ہنر کی فراہمی کے معاشی بدترین حالات اور روزگار کی غیر فراہمی میں یوں ہی چھوڑ دیا جائے تو فقط اس معاشرے میں دہشت گردی، جرائم اور نفسا نفسی میں انسانیت تار تار ہوتی نظر آئی گی جس طرح والدین کیلئے نوجوان اولاد کی تعلیم و تربیت انتہائی حساس ہو جاتی ہے، اس ہی طرح معاشرتی میدان میں ماں کا کردار ادا کرنے والی ریاست کے حکمرانوں پر بھی پوری پوری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہر ممکن وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے قلیل اور طویل مدتی تعلیمی پلانز معاشرتی، معاشی حالات اور نوجوانوں کے ذہنی تقاضوں کی حساسیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ترتیب دیں، آرٹیفیشل انیٹلیجنس کے دور میں جہاں چیٹ جی پی ٹی سمیت بہت سی حیران کن ایجادات عصر حاضر کا حصہ بن چکی ہیں ان کو پیش نظر رکھتے ہوئے تعلیمی پالیسی سازوں کو آئی ٹی کی تعلیم کو ترجیحی بنیادوں پرشامل کرنا چاہئے کیونکہ عالمی طور پر ریاست اور کچی عمر کے نوجوانوں کو سائبر حملوں اور ہائی برڈ وار سے محفوظ کرنے کیلئے انفارمیشن ٹیکنالوجی ناگزیر ہوچکی ہے لہٰذا حکمت عملی مرتب کرنے کا صحیح وقت بنا کسی تاخیر کے ابھی ہی ہے۔
