اپنے حصے کی کوئی شمع جلائے جاتے

امید و بیم کی کیفیت میں اپنے حصے کی شمع روشن کرنے والے ہی یاد رکھے جاتے ہیں، فرانس کی شہزادی تاریخ میں اس لئے امر ہوگئی کہ اس کی ”معصومیت” بالکل ویسی ہی تھی جیسی کہ ایک بنانا ری پبلک کے ایک منصف نے درختوں کو جلانے کے واقعات پر کہا تھا کہ یہ تو آنسو گیس کی شدت کم کرنے کیلئے کیا گیا ہوگا ساتھ ہی برادر نے فرانسیسی شہزادی کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے کہا تھا کہ ممکن ہے ہمارے فیصلے کا ”بنانا ری پبلک کے لاڈلے شہزادے” کو علم ہی نہ ہو تب سے بنانا ری پبلک میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی ذمہ داری ”لاڈلے شہزادے” پر نہیں ڈالی جاسکتی اس لئے اب جو مکے ، تھپڑ، ڈنڈے اور اینٹ پتھر کی باتیں ہو رہی ہیں تو ان کے بارے میں سیانے بہت مدت پہلے کہہ چکے ہیں کہ جو مکا وقت گزرنے کے بعد یاد آئے تو اسے اپنے ہی منہ پر مانا چاہئے، بات کسی اور سمت کی جانب چل پڑی ہے اور کہنے دیجئے کہ آپ پرامن رہنے کی بات کرتے ہوئے اگر فرما رہے ہیں کہ اگر ہم پر کسی نے ہاتھ اٹھایا تو ہم اس کا ”حشرنشر” کردیں گے۔ (مفہوم یہی ہے) تو حضور محاورے کے حوالے سے چت بھی تیری پت بھی تیری یعنی بنانا ری پبلک کی سرکار بھی آپ کی اور دربار بھی آپ کا یعنی سرکار دربار پر آپ کی حکمرانی ہو تو بھلا کون ہوگا جو آپ پر (خدانخواستہ) ہاتھ اٹھائے گا ہاں اتنا ضرور ہے کہ آپ کے ”ہمدم دیرینہ” یعنی سابق محبی سراج الحق نے یہ ضرور فرمایا ہے کہ پی ڈی ایم جلسوں کی بجائے نظام ٹھیک کرنے پر توجہ دے، بات تو بڑی پتے کی کہی ہے محترم موصوف نے تاہم اگر یہ کہتے ہوئے وہ اپنے ماضی کے کردار پر بھی مرحوم منو بھائی کے ”گربیان” میں جھانک لیتے تو شاید بہت سوں کا افاقہ ہوتا کیونکہ اس ساری تباہی اور بربادی کی ابتداء چند برس پہلے خود انہوں نے ہی مبینہ طور پر کہیں سے اشارہ پاکر میاں نوازشریف کے خلاف پانامہ کیس کو عدالت میں لے جاکر کی تھی اس وقت چار سو کے لگ بھگ افراد کا تذکرہ پانامہ کیس میں آف شور کمپنیوں کے حوالے سے سامنے آیا تھا مگر موصوف نے صرف نواز شریف کو ٹارگٹ بناکر جن ”حلقوں” کو خوش کرنے میں اہم کردار اداکیا تھا اس کے نتائج آج ہم بھگت رہے ہیں جبکہ باقی کے کرداروں کو موصوف نے بھلا دیا ہے، اب وہ حالیہ تباہی، بربادی اور دہشت گردی میں بنانا ری پبلک کے لاڈلے کو ”سہولت کاریوں” کے حوالے سے دوسری جنگ عظیم کے دوران انگلستان کے وزیراعظم سرنسٹن چرچل کی طرح ان الفاظ کو دوہرانے کا تکلف بھی نہیں کرسکتے کہ جب ان سے مختلف محاذوں پر جرمنی کے ہاتھوں پے درپے برطانوی افواج کی شکستوں کی اطلاع دی گئی تو انہوں نے کیا خوبصورت بات کی تھی کہ کیا ہماری عدالتیں کام کررہی ہیں اور کیا وہاں عوام کو انصاف مل رہا ہے؟ اور جواب ہاں میں پاکر چرچل نے بڑا تاریخی جملہ کہا تھا کہ پھر ہمیںدنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی، جنگ دشمن سے ہو رہی ہے تو چرچل کے جملے کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا مگر جب مبازرت اپنی صفوں میں عود کر جائے تو پھر سقوط ڈھاکہ جیسے سانحے قوموں کو نشان عبرت بنا دیتے ہیں، بنانا ری پبلک میں ایک بار پھر باہم الجھائو کی سی کیفیت ہے صورتحال بالکل ویسی ہی ہے جیسے کہ ایوب خاور نے کہا تھا۔
ہاتھ الجھے ہوئے ریشم میں پھنسا بیٹھے ہیں
اب بتا کونس سے دھاگے کو جدا کس سے کریں
بات چل نکلی ہے اس سے پہلے کہ دور تلک جائے گی والی صورتحال بن جائے کالم کے ابتدائی حصے میں جس بات کی طرف اشاہ کرتے ہوئے ہم نے احمدفراز کے بقول اپنے حصے کی کوئی شمع جلانے کی جو بات کی تھی اس کی طرف لوٹ آتے ہیں اور اس کا کارن وہ خبر ہے جس کا ایک لحاظ سے فرانس کی شہزادی کے ساتھ بھی تعلق بنتا ہے یعنی اس معصوم شہزادی نے روٹی کیلئے احتجاج کرنے والوں کے بارے میں کہہ دیا تھا کہ اگر انہیں روٹی دستیاب نہیں تو یہ کیک پیسٹری کیوں نہیں کھالیتے، شاید ایسی صورتحال کے حوالے سے بعد میں پشتو زبان میں ایک محاورہ ایجاد ہوا جس کا مفہوم یہ ہے کہ ”بھرا ہوا پیٹ فارسی بولتا ہے”۔ بہرحال بے چاری شہزادی کا جو حشر بعد میں احتجاج کرنے والوں کے ہاتھوں ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے اور ہم اگرچہ ہرگز یہ نہیں چاہتے کہ لمحہ موجود میں جو صورتحال خود ہمارے سامنے ہے، اس میں بھی (اللہ نہ کرے) فرانس کی تاریخ دوہرائی جائے اسی لئے ہم نے مکوں، تھپیڑوں، ڈنڈوں، پتھروں کے الفاظ سے ”مزین” بیانئے پر چند گزارشات کی ہیں اور وہ بھی اس توقع پر کہ ایک شاعر کے مصرعہ میں تحریف کرنے کی معافی مانگتے ہوئے اتنا عرض کرنا ضروری ہے کہ ”کوئی تو ہو جو میری بے بسی کا ساتھی ہو” یہاں ہم نے وحشتوں کے لفظ کو جان بوجھ کر حذف کردیا ہے کیوکہ وحشتوں کے اندر جو تلاطم بپا ہے اس کے ہم متحمل نہیں ہوسکتے، البتہ وہ جو فراز سے رجوع کرتے ہوئے ہم نے اپنے حصے کی شمع جلانے کا تذکرہ کیا تھا تو کم از کم قومی وطن پارٹی کے چیئرمین آفتاب احمد خان شیرپائو نے وہ کردار ضرور ادا کردیا ہے جو آج کے اس ”پرآشوب” دور میں صوبہ خیبرپختونخوا کے ساتھ گندم، آٹے اور روٹی کے حوالے سے وزیراعظم شہباز شریف کے ساتھ ملاقات کر کے ان تک یہ بات پہنچانے میں کامیاب ہوئے ہیں کہ پنجاب حکومت صوبہ خیبرپختونخوا کے عوام کے ساتھ ناروا سلوک کر رہی ہے اور آٹے کی ترسیل پر لگائی گئی پابندی سے صوبہ میں حالات کشیدہ ہورہے ہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتیںخصوصاً جن کا تعلق خیبرپختونخوا کے ساتھ ہے وہ کیوں منہ میں گھونگھنیاں ڈالے خاموش ہیں حالانکہ فیض احمد فیض نے ان سے بھی مخاطب ہوکر کہا تھا کہ
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول زباں اب تک تیری ہے
لیکن ان کے کانوں پر بھوکے عوام کی چیخوں کی جوئیں نہ جانے کیوں نہیں رینگ رہی ہیں اور حکومت کا حصہ ہوتے ہوئے بھی یہ پنجاب کی اس آئین شکنی پر آواز نہیں اٹھا رہے ہیں حالانکہ صوبے کی پن بجلی اور قدرتی گیس کے منابع اپنے صوبے سے زیادہ ملک کے دوسرے حصوں میں کھلتے رہتے ہیں اب ہم مرحوم عبدالقیوم خان کا کیا تذکرہ کریں جنہوں نے اپنے دور میں اسی طرح کی صورتحال پر اس وقت کی مرکزی حکومت کو للکارتے ہوئے بجلی دینے پر پابندی لگانے کی دھمکی دی تو اگلے ہی روز صورتحال معمول پر آگئی تھی اور اب تو آئین کے تحت بھی اس قسم کی قدغن نہیں لگائی جاسکتی مگر صرف آفتاب شیرپائو ہی کیوں باقی کے سیاسی رہنماء کیوں آواز نہیں اٹھا رہے ہیں؟
میں نہیں مانتا کاغذ پہ لکھا شجرنسب
بات کرنے سے قبیلے کا پتہ چلتا ہے

مزید پڑھیں:  مراعاتستان