مشرقیات

گزشتہ روز مائوں کا عالمی دن دنیا نے منایا ،اس انمول خزانے یا محبت کے سرچشمے کو بھی دنیا ایک دن کے کوزے میں بند کرنے پر تل گئی ہے ،تمام تر مادیت پرستی کے باوجود ایسا ممکن ہی نہیںکیونکہ ۔۔۔۔
جہاں ممتا لڑ جاتی ہے وہاں عرش والا زم زم جاری کر دیتا ہے۔ ماں کی تڑپ کے سامنے وہ اپنے قانون بدل دیتا ہے۔ جہاں ممتا لڑتی ہے وہاں وہ اسباب کی بجائے کن سے کام لیتا ہے۔ کالے تپتے پہاڑوں میں ایسا چشمہ جاری ہوا کہ تا قیامت لوگ فیض یاب ہوں گے۔ چشمہ پھوٹا تو اماں کو کہنا پڑا کہ زم زم رک جا رک جا۔ کون سوچ سکتا تھا کہ ایسے پہاڑوں میں اتنا میٹھا پانی میسر ہو گا۔ ممتا ہی تھی جو لخت جگر کے رونے پر بے چین ہوئی۔ ممتا کے آنسوؤں نے کن کو حرکت میں لایا اور چشمہ جاری کروا دیا۔ ممتا پریشان ہوئی۔ لخت جگر ہے۔ وقت کا حاکم سب بچوں کو قتل کرنے کا حکم دے چکا ہے۔ ماں بارگاہ ربوبیت میں پیش ہوئی۔ عرش والے نے کہا کہ اس کو صندوق میں بند کر کے دریا میں ڈال دو۔ اسی فرعون کے گھر موسی پلا۔ اتنا ہی نہیں رب العزت نے رضاعت بھی ممتا کو سونپی۔
ممتا نے موسی کو ہر محاذ پر دعاوں کی دولت سے ہمکنار رکھا تقویت دی۔لخت جگر اتنا لاڈلا ہوا کہ طور پر کلام کرنے جاتا تھا۔ ماں مصلے پر فکر مند دعاوں میں مصروف عمل ہوتی۔ آخر کل نفس ذائقہ الموت کا آسمانی قانون غالب آیا ماں چل بسی۔ موسی طور پر چڑھنے لگے عرش والے نے تنبیہ کر دی موسی سنبھل کے آ۔ ممتا جو نہیں تھی ساتھ آج۔۔۔
لخت جگر نابینا ہے۔ ماں بے چین ہے۔ نیت وقف کرنے کی تھی مگر پیدائشی بصارت سے محروم ہیں۔ مائیں ہار نہیں مانا کرتیں۔ ممتا عرش والے کو پگھلا دیتی ہیں۔ رحمت کی برکھا برس آتی ہے۔ رات مصلے پر مناجات ہیں آنسوؤں کی برسات ہے۔ صبح صادق ہی رحمت کی برکھا برس پڑی۔ بیٹے کو کن نے بینائی عطاء فرما دی۔ پھر وقت کے محدث بنے قیامت تک کے لیے امر ہو گئے۔
مائیں بڑی انمول نعمت ہیں۔ نعم البدل تو بنایا ہی نہیں گیا۔ نہ اسکی محبت کا نہ اس نام کا نہ اس کی تاثیر کا نہ اس کی ٹھنڈک کی۔ یہ ایک ہی رشتہ ہے۔ جو مار کے لڑ کے بھی سینے سے لگا کر خود ہی رو پڑتی ہے۔ یہ ننھے کندھوں پر بوجھ ڈالنا چاہتی ہے مگر بوجھ آنے پر اس ننھی جان کو ، لخت جگر کو سینے سے لگا کر تڑپ اٹھتی ہے۔
درد ہو یا محبت، فکر ہو یا خیال، نرم دلی ہو یا زمانے سے ٹکرانے کی طاقت اس سے زیادہ کسی میں نہیں ہے۔ یہ بڑی انمول ہیں نایاب ہیں۔ انکو آنکھ کا تارا بنا رکھیے۔ ان کو ٹھنڈک پہنچا رکھیے۔ کیونکہ جب اس کا کلیجہ فرحت محسوس کرتا ہے اور یہ ہاتھ اٹھا دے تو عرش تک کوئی چیز رکاوٹ نہیں بنتی۔

مزید پڑھیں:  اہم منصوبے پرکام کی بندش