سانحہ 9مئی ذمہ داروں کے خلاف اقدام

وزیراعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے الگ الگ مواقع پر سانحہ 9 مئی کے ذمہ داروں کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کی جو ہدایات جاری کی ہیں ان سے یہی تاثر ملتا ہے کہ ملک میں کوئی بھی ذمہ دار شخص یا حلقے اس سانحے میں ملوث افراد کو قانون کے شکنجے میں کسنے اور انہیں قرار واقعی سزا دلوانے میں نہ صرف سنجیدہ ہیں بلکہ اس حوالے سے شرپسندوں کے ساتھ کسی بھی قسم کی نرمی برتنے پر تیار نہیں ہیں، وزیراعظم شہباز شریف نے گزشتہ روز لاہور میں کور کمانڈرر ہائوس جسے عرف عام میں جناح ہائوس کہا جاتا ہے کہ دورے کے موقع پر کہا کہ کور کمانڈر ہائوس کو مکمل طور پر راکھ میں تبدیل کر دیا گیا ہے، اگلے 72 گھنٹوں میں عام مجرم، منصوبہ ساز، اکسانے والے اور حملہ آور گرفتار ہونے چاہئیں اور ان کے خلاف قانون کے مطابق کیسز درج ہوں، پاکستان سیف سٹی اتھارٹی کے دورے کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ 9 مئی کو پاکستان کی تاریخ کا بھیانک ترین اور دل خراش واقعہ ہوا، انہوں نے کہا کہ کور کمانڈر ہائوس جو ایک تاریخی جناح ہائوس ہے اس کو آج دیکھ کر دل خون کے آنسو رو رہا ہے، سب کچھ جل کر راکھ ہوگیا یہاں تک کہ تاریخی نوادرات بھی سب تباہ ہوگئیں، کاش بطور پاکستان ہمیں یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا، انہوں نے بجا طور پر کہا ہے کہ جن لوگوں نے اس بدترین حرکت میں حصہ لیا ہے ان کیلئے آئین اور قانون میں جو سزائیں لکھی گئی ہیں ہر صورت ان کو یہ سزائیں دی جائیں گی، انہوں نے کہا کہ اس کی تمام تر ذمہ داری عمران نیازی کے سر ہے، یہ منصوبہ اس نے بنایا اور اکسایا، لہٰذا فیصلہ کرنے والے اشتعال دلانے والے اور حملہ کرنے والے کسی کو کوئی رعایت نہیں دی جائے گی۔ ادھر آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے گزشتہ روز پشار میں کور ہیڈ کوارٹرز کا دورہ کیا جہاں آئی ایس پی آر کے مطابق انہیں موجودہ سکیورٹی صورتحال اور انسداد دہشت گردی کی جاری کوششوں پر بریفنگ دی گئی، کور کے افسروں سے خطاب کرتے ہوئے جنرل عاصم منیر نے کہا کہ ہم امن اور استحکام کی اپنی کوششیں جاری رکھیں گے، امن و استحکام کے عمل کو خراب کرنے والوں کیلئے کوئی جگہ نہیں ہوگی، پاک افواج تنصیبات کے تقدس کی خلاف ورزی کی مزید کسی کوشش کو برداشت نہیں کریں گی، انہوں نے کہا کہ 9 مئی یوم سیاہ کی کارروائیوں کے تمام منصوبہ سازوں، مشتعل افراد، اس پر اکسانے اور عمل کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں گے اور پاک فوج اپنی تنصیبات کو جلانے کی مزید کسی کوشش کو برداشت نہیں کریں گی، جنرل عاصم منیر نے انفارمیشن وارفیئر اور غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوششوں کے بارے میں بھی بتایا اور کہا کہ دشمن عناصر کی جانب سے مسلح افواج کو نشانہ بنانے کی مذموم کوشش کی جا رہی ہے، عوام کے تعاون سے ایسی مذموم کوششوں کو ناکام بنایا جائے گا، وزیراعظم اور آرمی چیف کے ان بیانات کا جائزہ لیا جائے تو دونوں سانحہ 9 مئی کے حوالے سے ایک ہی سوچ کے حامل نظر آتے ہیں اور دیکھا جائے تو ملکی مفادات کاتقاضا بھی یہی ہے کہ ملکی اہم تنصیبات کو نقصان پہنچانے والوں اور نیا بھر میں ملک کو جگ ہنسائی کا باعث بنانے والوں کے ساتھ کسی رو رعایت کا مستحق سمجھا جائے نہ ہی انہیں کسی بھی صورت معاف کیا جائے۔ اس حوالے سے حکومتی حلقوں اور اداروں کی جانب سے بار بار یہ جو ”منصوبہ سازوں، اکسانے والوں، مشتعل افراد اور اس حوالے سے عمل کرنے والوں” کا تذکرہ کیا جا رہا ہے دیکھا جائے تو تمام تر اشارے اسی سمت جاتے دکھائی دے رہے ہیں یعنی یہ سب کچھ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا اور جیسے ہی عمران خان کی گرفتاری کی خبریں سامنے آئیں مشتعل ہجوم نے بطور خاص سکیورٹی سے متعلق اداروں اور ان سے متعلق اہم سرکاری حکام کی رہائش گاہوں کا رخ کیا جس کے پیچھے گہری سازش کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، جہاں تک شرپسندوں کی گرفتاری اور انہیں کیفر کردار تک پہنچانے کا تعلق ہے اس حوالے سے تحریک انصاف کی جانب سے جو اشارے کئے جارے ہیں ان کی غیر جانبدار انکوائری تک کوئی بات حتمی طور پر تو نہیں کہی جاسکتی اگرچہ متعلقہ ادارے تحقیقات جاری رکھے ہوئے ہیں تاہم تحریک کے سربراہ عمران خان نے اس قسم کے الزامات کو مکمل طور پر رد کرتے ہوئے اس کا الزام الٹا حکومتی اتحادی جماعتوں پر لگا دیا ہے اور کہا ہے کہ تحریک پر پابندی لگانے کیلئے انہوں نے شرپسندوں کو استعمال کیا، عمران خان نے یہ بھی کہا ہے کہ ہم ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ پر یقین نہیں رکھتے، انہوں نے چیف جسٹس کی نگرانی میں تحقیقاتی کمیشن کے قیام کا بھی مطالبہ کیا ہے، سابق وزیراعظم کے بیان پر غور کیا جائے تو ان کے بیان میں تضاد نظر آتا ہے یعنی ایک جانب وہ سانحہ 9 مئی کے حوالے سے تحریک کے کارکنوں کو ”منزہ عن الخطائ” قرار دیتے ہوئے ان ہنگاموں سے ان کی لاتعلقی کا اعلان کر رہے ہیں مگر دوسری جانب یہ دھمکی بھی دے رہے ہیں کہ اگر مجھے دوبارہ گرفتار کیا گیا تو ایسا ہی ردعمل دوبارہ ہوگا، اب اس تضاد بیانی سے کیا مطلب اخذ کیا جائے جبکہ جہاں تک چیف جسٹس کی قیادت میں انکوائری کا تعلق ہے تو عدلیہ میں موجود بعض جج صاحبان کے عمران خان کو ”سہولت کاری” کے اقدامات پر ملک بھر میں جس قسم کے تبصرے سامنے آرہے ہیں ان کی موجودگی میں کیا حکومتی حلقے عمران خان کے اس مطالبے کو آسانی سے مان لیں گے؟ ادھر صدر مملکت کے حوالے سے اس قسم کی خبریں بھی سوچ کے کئی در وا کرتی دکھائی دیتی ہیں کہ انہوں نے اب تک سانحہ 9 مئی کے واقعات کی مذمت تک نہیں کی حالانکہ بحیثیت صدر مملکت ان کا کردار غیر جانبداری کا متقاضی ہے اور انہیں ان واقعات کی مذمت میں ایک لمحے کی بھی تاخیر نہیں کرنی چاہئے تھی۔

مزید پڑھیں:  ''چائے کی پیالی کا طوفان ''