کیا اسیری ہے ، کیا رہائی ہے

مُلک کی سیاسی صورتحال اور مختلف واقعات کے پیش نظرآج جگر مراد آبادی کا شعر یاد آیا تو اس کے دوسرے مصرع کو کالم کا عنوان دیتے ہوئے ماضی کے کئی مناظر آنکھوں کے سامنے تھے ۔ مَیں ابھی سکول میں زیر تعلیم تھا کہ ہمارے پڑوس میں ایک گمنام سیاسی کارکن رہا کرتا۔ بائیں بازوکی سیاسی فکر رکھنے والے اس سوشلسٹ کو آئے روز خفیہ والوں کی رپورٹ پر پولیس پکڑ کر لے جاتی ۔ ایک شب بڑا شور ہوا، مَیں گھر سے باہر آیا تو بہت سے لوگ پولیس والوں کی منتیں کر رہے تھے کہ اس سیاسی کارکن کو گرفتار نہ کریں کہ اس کا بوڑھا والد بیمار ہے ۔ وہ گھر سے باہر نکلا ، لوگوں کو شور شرابا اور منتیں کرنے سے منع کیا ۔ جب چپ کر کے پولیس کی گاڑی میں بیٹھنے لگا تو اپنے ایک دوست کو آواز دی کہ صبح میرے بابا کو ہسپتال ضرور لے جانا۔ اُس کا جرم یہ بتایا گیا کہ چند بھٹہ مزدوروں کو جب پولیس نے کسی شک کی بنیاد پر حراست میں لیا تو اس سیاسی کارکن نے بھٹہ مزدوروں کو جمع کر کے احتجاج کیا اور امن و امان میں خلل ڈالا۔ تین ماہ جیل میں گزارے ، جب ضمانت پر رہائی ہوئی تو سب سے پہلے والد کی قبر پر دعا ئیں کرنے قبرستان کا رخ کیا کہ اسیری کے دوران اس کا والد وفات پا گیا ۔ ضیاء الحق کی آمریت میں مقامی کالج کے ایک پروفیسر کے گھر سے جب چھاپہ کے دوران ذولفقار علی بھٹو کی چند تصاویر اور فیض احمد فیض کا شعری مجموعہ پولیس کے ہاتھ آیا تو اسے گرفتار کیا گیا ۔ خفیہ والوں کی یہ رپورٹ تھی کہ پروفیسر کیمونسٹ خیالات کا مالک ہے اور کالج کے طلبا ء کو حکومت کے خلاف متنفر کر رہا ہے ۔ اس گرفتاری کے نتیجہ میں مروجہ قانون کے مطابق پہلے وہ معطل ہوئے اور
پھر اسیری کے دوران ہی اُنہیں ملازمت سے فارغ کر دیا گیا ۔ دس ماہ کے بعد ضمانت پر رہائی ہوئی ، مقدمہ طول پکڑ گیا ، عدالت میں مسلسل حاضری ہوتی رہی مگر ایک اُستا د کو دیکھ کر کسی کو خوشی نہ ہوئی ۔یوں نہ شنوائی ہوئی اور نہ ہی ملازمت ملی۔ بے بس اور لا چار اُستاد کو دل کی بیماری نے آلیا اور بالآخر اُسے موت کی نیند سلا دیا ۔ مولانا عبدالستار نیازی سے تو اُن کی اسیری ورہائی کے متعد د قصے سنے ۔ ہمیشہ خندہ پیشانی سے گرفتاری دی اور جب جیل سے باہر آتے تو پھولوں کے ہار گلے میں ہوتے ۔ پھانسی کی کوٹھڑی میںقید کے دوران جب جیلر اُنہیں رات گئے رہائی کی خبر دینے آیا تو سو رہے تھے ۔ اُسے جواب دیا کہ اب سونے دو ، صبح کی نماز پڑھ کر چلا جاؤں گا ۔
تھر پارکھر سندھ سے تعلق رکھنے والے کامریڈ جام ساقی نے زندگی کے پندرہ سال جیل میں کاٹے ۔ ایک ملاقات کے دوران وہ اپنے قید و بند کی کہانی بڑے اشتیاق اور کچھ اس پیرائے میں سنا رہے تھے جیسے اُنہیں اپنی فکر اور عزم کے خراج میں اعلیٰ مقام حاصل ہوا ۔ اخبارات میں ان کی موت کی جھوٹی خبر شائع ہوئی تو اس غم میں ان کی بیوی نے خود کشی کر لی ۔ نہ اُنہیں چہرہ دیکھنے کی
اجازت دی گئی اور نہ کسی نے واویلا کیا ۔ اسی طرح پشتون سوشلسٹ سیاسی رہنما خان عبدالولی خان کی پہلی زوجہ اس وقت وفات پا گئیں جب پشتون قوم کے حقوق کی جنگ لڑتے ہوئے وہ سال 1948میں پابند سلاسل تھے ۔ جب رہا ہوئے تو ذاتی دکھ پر کوئی احتجاج نہ کیا اور اپنی عوامی تحریک جاری رکھی ۔ بم دھماکہ میں صوبے کا گورنر قتل ہوا تو اس کی پاداش میں خان صاحب کی سیاسی جماعت پر 1974 میں پابندی لگا دی گئی اور انہیں دیگر ساتھیوں سمیت حید ر آباد کی جیل میں قید کر دیا ۔ ایک ٹریبونل قائم ہوا ، ایک بڑے پیمانے پر اس بدنام حیدر آباد ٹریبونل نے ان پر مقدمہ چلایا ۔ خان صاحب نے رہائی کی بجائے اسیری کو ترجیح دی اور اپنے قانونی دفاع میں حصہ نہ لیا ۔ مُلک کے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو پر قتل کا مقدمہ چلا ۔ اس مقدمے کی نوعیت ، آمریت کے جبر اور اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان کی کارکردگی پر یہاں بات کرنے کی ضرورت نہیں اور اس سے ہٹ کر عوامی رہنما کا یہ عمل باقی سب رہنماؤں کے لیے مثالی ہے جس نے اپنی رہائی کی خاطر معافی مانگنے اور سیاست چھوڑنے کی بجائے جان کی بازی لگا دی ۔
معروف صحافی شورش کاشمیری نے اپنی تحریر و تقریر کے باعث عمر کا بیشتر حصہ جیلوں میں گزارا۔ پنجاب میں دولتانہ وزارت سے لے کر مصطفےٰ کھر کی وزارت تک مرحوم کی اسیری و رہائی کا سلسلہ چلتا رہا۔کبھی پیسہ اور کسی کی بیساکھی کا سہارا نہیں لیا بلکہ وہ اس عمل کو قلم کی عصمت فروشی ہی سمجھتے کہ جس کا اظہار اُنہوں نے میرے ایک بزرگ وکیل کے سامنے کیا ۔ صحافی و افسانہ نگار ابراہیم جلیس کو امن عامہ کے خلاف حرکات سے باز رکھنے پر اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ اپنے بچوں کے لیے ٹافیاں اور چاکلیٹ خرید کر دکان سے باہر نکلا۔ کراچی جیل میں سیفٹی ایکٹ کے اس قیدی کو سنگین جرم کرنے والوں کی کھولی میں چھ ماہ تک رکھا گیا ۔ کوئی مقدمہ نہ چلا ، ضلعی مجسٹریٹ کی جانب سے صرف ایک تحریری حکم نامہ ملا کہ اپنے اخباری مضمون بعنوان ‘ پاکستان کب بنے گا ‘ میں حکومت کے خلاف نفرت پیدا کرنے کے جواز میں صفائی پیش کرو ۔ اُسے یہ پڑھ کر تسلی ہوئی کہ وہ مجرم نہیں بس حکومت باغیانہ تخیل اور تعمیری تنقید میں کوئی فرق نہیں کر سکی۔ رہائی ہوئی تو جیلر کے پاس جمع کیا گیا بچوں کی ٹافیوں کا ڈبہ اُٹھا کرچپکے سے گھر لوٹ آیا ۔ انقلابی شاعر حبیب جالب جب ایوبی آمریت میں قید تھا تو اس کا سات سالہ بچہ فوت ہوا مگر آخری دیدار کی اجازت نہ ملی ۔ رہائی کا حکم ملا تو اس وقت تک جیل سے باہر نہ نکلا جب تک اس کے ساتھ قید ہونے والے بیس دوستوں کی رہائی نہ ہوئی ۔ قارئین کرام ! کاش یہ لوگ آج زندہ ہوتے تو دیکھتے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی نے ایسے روبوٹ بنا لیے ہیں جو کسی کی اسیری و رہائی پہ بھی احتجاج کرنے لگتے ہیں اور محض بٹن دبانے پرمطلوبہ حکم کی تعمیل کرتے ہیں ۔ ہاں جگر مراد آبادی کے شعر کا پہلا مصرع ہے ” اُس نے اپنا بنا کے چھوڑ دیا ” ۔ قارئین کرام ! میری دعا ہے کہ کوئی کسی کو اپنا بنا کر کبھی اکیلا نہ چھوڑے اور ہمیں اپنوں اور بیگانوں میں تمیز کی توفیق عطا ہو ۔

مزید پڑھیں:  پیغام ِ فرید…اپنی نگری آپ وسا توں''