اس شہر نامراد سے خیمے سمیٹ لو

یہ کنکریٹ ‘سریئے ‘ ریت اور سیمنٹ سے بنی ہوئی عمارت نہیں تھی ‘ بلکہ شعور و آگہی ‘ تہذیب و تمدن ‘ زبان و ادب کے حوالے سے ماضی کی شاندار روایات کی حامل ایک ایسی نشانی تھی جس کے اندر کئی نسلوں کی داستانیںیادوں کے جھروکوں سے جھانکتے ہوئے آنے والی نسلوں کو یہ شاندار روایات لمحہ بہ لمحہ منتقل کرنے کا ایک ایسا عمل جاری رکھے ہوئے تھی جس میں ماضی ‘ حال اور مستقبل کی قوس قزح کے سات رنگ موسیقی کے سات سروں کے بہتے دریا کی موجوں میں رقصاں نظر آتے تھے ‘ اس عمارت سے تو محبت کے چشمے پھوٹتے تھے ‘ امن و آشتی کی صدائیں بلند ہوتی تھیں ‘ قیام پاکستان کے بعد اس کے بڑوں نے قرآن مجید فرقان حمید کی ورق گردانی کرتے ہوئے بڑی سوچ بچار کے بعد اس کے لئے جو نعرہ دھیمے سروں میں تجویز کیا تھا وہ تھا”قولو للناس حسنا” یعنی میٹھی بات کرو ‘ ابتداء تو آل ا نڈیا ریڈیو کی حیثیت سے اس کی 1935ء میں سیکرٹریٹ کے دو کمروں میں کی گئی تھی’ جس کا بنیادی مقصد دیہات سدھار اور عوام کو تھوڑی بہت تفریح بہم پہنچانا تھی ‘ تاہم جب 1942ء میں اس کے لئے جدید عمارت(جہاں اب پشار ہائیکورٹ کی عمارت ہے) تعمیر کی گئی اور اس کے لئے پانچ کلو واٹ کا نسبتاً طاقتور ٹرانسمیٹر نصب کیا گیا تو اس ریڈیو سٹیشن کی نشریات صوبہ سرحد کے کچھ دور دراز مقامات تک بھی پہنچنے لگے ‘ جبکہ موجودہ عمارت بہت بعد میں بنائی گئی ‘ لیکن سول سیکرٹریٹ کے دو کمروں میں اپنی ابتدائی نشریات شروع کرنے والا ریڈیو سٹیشن ‘ بعد میں 1942ء میں تعمیر کئے جانے والے عمارت سے ہوتے ہوئے موجودہ عمارت میں جاگزیںہوا اور چند روز قبل جس سانحے سے دو چار ہوا ‘ اس تک نشریات کا سفر جاری رکھنے والا ریڈیو سٹیشن برصغیر میں نشریات کی تاریخ کے حوالے سے آل انڈیا ریڈیو دہلی کے بعد سب سے پرانا سٹیشن تھا جہاں سے تیرہ اور چودہ اگست کی درمیانی رات آفتاب احمد خان نے رات 11بج کر 59منٹ پر اس اعلان کے ساتھ ہی برصغیر کے اس حصے میں جہاں رات بارہ بج کر ایک منٹ پر پاکستان کے نام سے ایک نئی آوازمملکت میں آل انڈیا ریڈیو نشریات دم توڑ کر ریڈیو پاکستان کے نام سے نئے وطن کے قیام کی مبارکباد کا پیغام نشر ہونے سے اپنی نئی شناخت کے ساتھ ابھرا ‘ وہ اعلان یہ تھا ”رات کے 11بج کر 59 منٹ ہوئے ہیں یہ آل انڈیا ریڈیو پشاور ہے ‘ ہمارے دوسرے اعلان کا انتظار فرمایئے ‘ پھر صرف دو منٹ کے بعد پشاور میں آفتاب احمد اور لاہور میں مصطفی علی ہمدانی کی آواز میں ا بھریں ”رات کے باہ بج کر ایک منٹ ہوئے ہیں ‘ یہ پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس کی آواز ہے’ پاکستان قائم ہو چکا ہے ہم اپنے سننے والوں کو پاکستان کے قیام کی مبارکباد دیتے ہیں ‘ اس کے بعد ریڈیو پاکستان پشاور سے احمد ندیم قاسمی کا یہ گیت فضائووں میں گونجنے لگا
پاکستان بنانے والے پاکستان مبارک ہو
قیام پاکستان کے بعد ریڈیو پاکستان نے ایک نئی اسلامی مملکت کی فکری ‘ شعوری ‘ ادبی ‘ ثقافتی ‘ تہذیبی ‘ تمدنی او اسلام کے بنیادی تعلیمات کے مطابق قوم کی رہنمائی کا فرض کس طرح ا دا کیا ‘ یہ کہانی اتنی ہی پرانی ہے جتنی پاکستان کی ہے ‘ اگرچہ اس سے پہلے بھی ریڈیو پاکستان پشاور سے بطور آل انڈیا ریڈیو جو پروگرام نشر ہوتے تھے ان میں بھی پختون ثقافت اور روایات کا بہت اہتمام کیا جاتا تھا اور پختون معاشرے کی قدیم روایات پر بھی اسلامی تعلیمات کا غالب اثر رہا ہے اس لئے تب بھی آل انڈیا ریڈیو پشاور سے کبھی ایسی بات نشر نہیں ہوئی جس پر پختون روایات سے دوری کا احساس ہوتا ہو ‘ گویا بقول علامہ اقبال تب بھی صورتحال کچھ یوں تھی کہ
خرد نے مجھ کو عطا کی نظر حکیمانہ
سکھائی عشق نے مجھ کو حدیث رندانہ
یہ باتیں اس لئے یاد آئیں کہ حالیہ ہنگاموں کے دوران اس تہذیبی ورثے کو جس طرح جلا کر خاکستر کر دیا گیا ‘ اس میں اس ادارے کے درو دیوار ہی تباہ نہیں کئے گئے ‘ اس ادارے کے ساتھ وابستہ رہنے والوں کی یادوں کو بھی کھرچ کر نذر آتش کر دیاگیا ‘ ساحر لدھیانوی کو اپنے کالج کی جانب سے سالانہ تقریب اور مشاعرے میں مدعو کیا گیا تو انہوں نے اس موقع کے لئے بطور خاص ایک نظم لکھی تھی جس میں ساحر نے یہ مصرعہ بھی لکھا تھا کہ
ہیں دفن اس میں میری جوانی کے چار سال
کچھ ایسی ہی کیفیت مجھ سے سابق وابستگان ریڈیو کی بھی ہے ‘اگرچہ ہم میں سے بہت سے لوگوں نے اپنی ملازمت کے تیس پنتیس سال تسلسل کے ساتھ یہاں نہیں گزارے کیونکہ دوران ملازمت ہم میں سے اکثر لوگ دوسرے سٹیشنوں پر بھی خدمات انجام دیتے رہے ہیں ‘ تاہم بہ حیثیت مجموعی زیادہ عرصہ ہم نے اسی سٹیشن پر گزارا ‘ اور جن لوگوں نے اپنی ملازمت کی ابتداء اسی سٹیشن سے کی ہے ان کے دلوں میں یہ سٹیشن اپنی پوری تابانی کے ساتھ جاگزیں ہے ‘ اس لئے اس کے ساتھ”ظالموں” نے جوسلوک کیا ہے اس سے ہمارے دل چھلنی ہو چکے ہیں ‘ اس سٹیشن پر گزارا ہوا ایک ایک لمحہ اور ان کے ساتھ منسلک یادیں آج بھی ہمارے دلوں میں تازہ ہیں جبکہ اخبار میں جو خبریں شائع ہوئی ہیں ان میں بعض حقائق کو ان کے صحیح پس منظر سے ہٹ کر بیان کیا گیا ہے اس لئے ریکارڈ کی درستی ضروری گردانتے ہوئے مجبوراً اس حوالے سے قلم اٹھانے پر مجبور ہوا ہوں۔ خبرمیں بتایا گیا ہے کہ ریڈیو پاکستان کا 1935 سے اب تک کا ریکارڈ جل کر خاکستر ہو گیا ہے ‘ حالانکہ اصل صورتحال یہ نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جب موجودہ عمارت میں ریڈیو پاکستان
منتقل ہو رہا تھا تو اس وقت سارا پرانا ریکارڈ اس وقت کے سٹیشن ڈائریکٹر کے احکامات کے تحت پروگرام منیجر کی نگرانی میں جلا دیاگیا تھا حالانکہ ہم میں سے کئی سینئر افراد نے اس ریکارڈ کی اہمیت کے پیش نظر جلانے کی بجائے اے موجودہ عمارت کی چوتھی منزل میں جہاں کئی کمرے خالی پڑے تھے ‘ محفوظ رکھنے کی درخواست کی لیکن چونکہ اس دور کے سٹیشن ڈائریکٹر کا تعلق پروگرام کے شعبے سے نہیں تھا بلکہ بنیادی طور پر انہوں نے بطور انجینئر ملازمت کی ابتداء کی تھی اور پھر ایک اور شعبے لسنرریسرچ یونٹ میں ایک سینئر عہدے پر پبلک سروس کمیشن کے ذریعے امتحان اور ا نٹرویو پاس کرکے براجمان ہو گئے تھے او رجب ریڈیو پاکستان کو کارپوریشن بنایا گیا تو موصوف نے اعلیٰ حکام کے ساتھ”تعلقات” کی مدد سے پروگرام سیکشن میں عہدہ حاصل کرکے مزید ترقی کے بعد بطور سٹیشن ڈائریکٹر پشاور سٹیشن پر تعیناتی کا پروانہ حاصل کیا ‘یوں نئے سٹیشن میں شفٹ ہوتے ہوئے انہوں نے پرانا ریکارڈ تلف کر دیا ۔ موجودہ سٹیشن میں جتنا ریکارڈ موجود تھا وہ اس کے بعد کا تھا ‘ تاہم اس کی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ‘ جبکہ پرانے سٹیشن پر آل انڈیا ریڈیو کے وقت سے اردو ڈراموں کا جو ریکارڈ حرف تہجی کے حوالے سے جلد بند ہو کر محفوظ کیا گیا تھا ‘ اسے ایک بار پشاو رکے دورے پر آئے ہوئے (غالباً 80ء کی دہائی میں) اس دور کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل(بعد میں ڈائریکٹر جنرل ہوئے) سید سلیم گیلانی مرحوم نے وہ پورا ریکارڈ تقریباً ڈیڑھ دو سو جلدوں کو ایک ویگن میں ڈال کر اسلام آباد ہیڈ کوارٹر میں موجود سنٹرل پروڈکشن یونٹ میں منتقل کرادیا تھا جہاں وہ اس وقت بھی ”کسمپرسی” کی حالت میں بربادی کی تصویر بنا ہوا ہے ‘ حالانکہ اگر وہ ریکارڈ یہاں ہوتا تو نہ جانے کتنے طالب علم ان ڈراموں کے مختلف پہلوئوں پر ایم فل اور پی ایچ ڈی کر چکے ہوتے ۔ یادیں تو اور بھی بہت ہیں مگر کالم کی تنگی آڑے آرہی ہے۔
کوفہ مزاج لوگوں کی بہتات ہے یہاں
اس شہر نامراد سے خیمے سمیٹ لو

مزید پڑھیں:  ''ظلم دیکھ کر چپ رہنا بھی ظلم ہے''