گھیرا تنگ

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی گرفتاری کے خلاف 9اور10مئی کو مختلف شہروں میں پرتشدد احتجاج کے دوران توڑپھوڑاور جلائوگھیرائو میں ملوث افرادکی گرفتاریوں کیلئے ملک بھر میں پکڑدھکڑکا سلسلہ تیزہوگیا ہے جس کے دوران مجموعی طورپر4ہزارسے زائد گرفتاریاں عمل میں لائی گئی ہیںاطلاعات کے مطابق جی ایچ کیو حملہ کیس میں ابتک 76 افراد گرفتار کیے جا چکے ہیں۔ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک غیر سیاسی اور سیاسی معاملات سے غیر متعلق دفاعی ادارے کے مرکز اور تنصیبات کو جس طرح نشانہ بنایا گیا اگر فوج کی طرف سے نہایت تحمل کامظاہرہ نہ کیا جاتا تو درجنوں اموات ہوتیں اورملک میں مزید خانہ جنگی ہوتی ایسا لگتا ہے کہ اس کا عسکری قیادت کو پیشگی ادراک تھااور عین ممکن ہے کہ اطلاعات ہونگی جس کی روشنی ہی میں احتیاط اور برداشت کا مظاہرہ کیاگیا وگرنہ یہ ممکن ہی نہ تھا کہ جی ایچ کیو جیسے ادارے اور عسکری تنصیبات و مقامات کی کلی حفاظت کا بندوبست نہ ہو اور برموقع معاملہ نمٹانے کا پورا بندوبست نہ ہو بہرحال اب جبکہ جو ہونا تھا وہ ہو چکا اس کے بعد قانون کا حرکت میں آنا اور ملوث عناصر کا درست شناخت کے بعد گرفتاری قانون کا تقاضا اور حکام کی بنیادی ذمہ داری ہے اس کے بعد عدالتوں میں پیشی کی باری آنے پر بھی اس حوالے سے نرم گوشہ کا اظہار نہیں ہونا چاہئے جس طرح کے جرم کا ارتکاب کیا گیاروا تو یہ ہو گا کہ سول عدالتوں میں مقدمات کی بجائے فوجی قوانین کے تحت ان افراد کے خلاف کارروائی ہو ایسا کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ ان عناصر کو قرار واقعی سزا ملے اور آئندہ کے لئے عبرت کا نشان بنیں تاکہ کسی اور موقع پراس طرح کی سوچ ہی کی جرأت نہ ہو۔ گزشتہ دنوں جس طرح کی صورتحال سامنے آئی اور اب تک سامنے آنے والی تفصیلات کے مطابق تحریک انصاف کے جذباتی کارکنوں نے پی ٹی آئی کی پہلے سے طے شدہ حکمت عملی پر عملدرآمد کرکے جو صورتحال پیدا کی وہ بطور سیاسی جماعت ان کے حق میں اچھا نظر نہیں آتا۔ تحریک انصاف کے کارکنوں نے اس عمل کو براہ راست فوج سے نفرت اور تصادم کا موقع بنا کر جس طرز کا احتجاج کیا وقتی اورجذباتی طور پر تو وہ اس میںخود کو کامیاب سمجھتے ہوں گے لیکن اس کے سنگین قانونی نتائج اب جب سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں تو افسوس وندامت کا اظہار کیا جانے لگا ہے جو بے سود ہے۔ایسا لگتا ہے کہ قیادت کی بجائے اس سارے عمل کا بوجھ اب زیریں سطح کے کارکنوں کو ہی اٹھانا ہوگا ۔ سیاسی قائدین کی جانب سے اس طرح کے عمل کی حوصلہ افزائی خطرناک رجحان ہے پرتشدد احتجاج سے تو یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ اپنے قائد کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیںایک سیاسی جماعت او راس کے کارکنوں کے لئے اس طرح کے موقع پر عوامی قوت کا پرامن مظاہرہ ہی مناسب ہوتا گھیرائو جلائو اور تکلیف دہ عوامل میں ملوث ہونا یا پھر اس طرح کے عناصر کی اپنی صفوں میں موجودگی اور ان کے عمل کا تحریک انصاف کا ردعمل ہونا ہر دو صورت کا منفی تاثرات کا باعث بننا فطری امر تھا ملک کے کسی رہنما کی گرفتاری پر اس طرح کا ردعمل کسی نے ظاہر نہیں کیا ان حالات کی ذمہ داری اور تعبیر جیسے بھی کی جائے بطور احتجاجی جماعت تحریک انصاف کی قیادت کو اس ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں ٹھہرایا جا سکتا ۔اس ضمن میں قانون اپنا راستہ اختیار کر چکی ہے اور قانون کی خلاف ورزی جہاں بھی ہو اس کی سزا اس لئے بھی ضروری ہے کہ قانون کو مذاق نہ سمجھا جائے ہمیں جہاں پی ٹی آئی کی قیادت سے ذمہ دارانہ کردار کی توقع رکھنی چاہئے وہاں پی ڈی ایم کی قیادت سے بھی جذبات کی بجائے ٹھنڈے دل سے حالات پر غور کرنے اور ہر قسم کے تحفظات کے باوجود تحمل سے کام لینے کی توقع رکھنی چاہئے ‘ جب دونوں طرف سے زبانیں آگ اگلنے لگیں ادارے تک یکطرفہ ہونے کا تاثر دینے لگیں تو پھر حالات کے درست کرنے کی توقعات کس سے باندھی جائیں اس امر کے اعادے کی ضرورت نہیں کہ ملک پہلے ہی انتہائی نوعیت کے مشکل حالات سے دو چار ہے دہشت گردی معاشی بدحالی مہنگائی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بے چینی کچھ کم تھی کہ باہمی تصادم کی صورتحال پیدا کر دی گئی ہے اس طرح کے حالات میں دنیا کا کوئی بھی ملک سیاسی بے چینی کا متحمل نہیں ہو سکتا اور نہ ہی سیاستدانوں سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ ان حالات کے بخوبی ادراک کے باوجود ملک کواپنے ہاتھوں بحران میں دھکیل دیں۔اسی طرح کے حالات میں مذاکرات اور نتیجہ خیز مذاکرات کی بھی توقع نہیں رہ جاتی اس کے باوجود کسی درمیانی راہ کی تلاش اور اعتدال سے کام لینے کی ضرورت ہے سیاستدانوں کو ہر قیمت پر سیاست و ا قتدار کی لڑائی لڑنے کی بجائے ملک و قوم کے مستقبل اور لوگوں کی مشکلات کی طرف بھی متوجہ ہونا چاہئے ملک میں امن قائم ہے تو سیاستدانوں کو کرسی مل سکے گی خدانخواستہ بدامنی کا شکار ہوجائے تو پھر اقتدار نہیں عوام کے غیص و غضب کا سامنا کرنا پڑتا ہے دانش مندی کا تقاضا ہے کہ وہ نوبت نہ آنے دی جائے اور انا پسندی اور ضد کی بجائے مفاہمت اور اعتدال کا راستہ اپنایا جائے۔

مزید پڑھیں:  تزئین و آرائش بعد میں ،پہلے شہر بچائو