خبر ہے کہ پشاور میں احتجاج کی آڑ میں سرکاری و نجی املاک کونقصان پہنچانے کے الزامات میں گرفتار افغان مہاجرین کو ڈی پورٹ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ‘ جبکہ جلائو گھیرائو کے ا لزامات میں گرفتار افغان باشندوں کا جسمانی ریمانڈ حاصل کرکے ان سے مزید تفتیش بھی شروع کر دی گئی ہے ۔ اس صورتحال پر بات آگے بڑھانے سے پہلے ایک مختصر سی کہانی آپ کے گوش گزار کرنا ضروری ہے ‘ جو ایک ایسے کردار کے گرد گھومتی ہے جن سے ہمارا قدر دور سے تعلق بنتا تھا ‘ یعنی رشتے کے حوالے سے وہ ہماری چچی تھیں یعنی ان کے میاں اور ہمارے والد چچا زاد جبکہ ہماری والدہ ان کے شوہر کی پھوپھی زاد تھیں جبکہ خاندان کے بچے انہیں”اماں جی”کے نام سے پکارتے تھے ‘ یعنی وہ ”جگ اماں جی” کے منصب پر فائز تھیں چونکہ وہ عین جوانی ہی میں بیوہ ہو گئی تھیں اس لئے وہ اپنے چار بچوں دو بھائیوں اور دوبہنوں کے ساتھ مجسم محبت بن کر خاندان کے بچوں کو شفقت بانٹتی رہتی تھیں’ انہوں نے ایک جانب چوزے پال رکھے تھے اور ان چوزوں کی پرداخت کرکے بڑی ہونے والی مرغیوں سے انڈے حاصل کرکے خاندان بھر کے بچوں کو بانٹ دیتی تھیں تودوسری جانب انہوں نے ایک بلی پال رکھی تھی ‘ یہ بلی ابتداء میں تو قابل برداشت تھی مگر جیسے جیسے یہ بلونگڑے سے(بڑے ہوتے ہوئے) بلی بن گئی توپھر اس قدر شرارت کرنے لگی کہ پورا خاندان اس کی حرکتوں سے تنگ آگیا ‘ سب شکایتیں لے کر اماں جی کے پاس پہنچ جاتے ‘ شروع میں تو وہ مسکرا کر ٹال دیتی مگر جب معاملات حد سے بڑھ گئے اور بلی مانو پورے خاندان کے لئے عذاب بننا شروع ہوگئی تو بالآخر اماں جی بھی بے بس ہو گئیں اورحکم جاری کر دیا کہ بلی کو پکڑ کر کسی دوسرے محلے میں جا کر چھوڑ آئو بلی کو متعدد بار بڑی مشکل سے گھیر گھار کر دو چار محلے دور چھوڑ دیا جاتا مگر بچوں کے واپس آنے سے پہلے یہ بلی واپس آجاتی ‘یہاں تک کہ خود اماں جی بھی پچوں پر ناراض ہونے لگی کہ تم لوگ جھوٹ بولتے ہو اور بلی کو قریب کی کسی گلی میں چھوڑ آتے ہو جو اتنی جلدی واپس پہنچ جاتی ہے ‘ تنگ آکر ایک بار بلی کو ”گرفتار” کرکے ایک بوری میں بند کر دیا گیااور نسبتاً ذرا بڑے بچوں کے حوالے کرکے بہت دور چھوڑ آنے کو کہا گیا ‘ وہ ”بوری بند بلی” کو اٹھاکر شہر سے بہت دور(تب یہ بہت درو ہی کہلایا جا سکتا تھا) موضع چمکنی جو شہر سے تقریباً پانچ میل کے فاصلے پرتھا بلی کو بوری سے رہا کرکے اطمینان کرکے(مگر ہانپتے کانپتے ) واپس گھر پہنچے تو بلی مانو میائوں میائوں کرتی ان کا استقبال کرتی رہی۔ اس کے بعد خاندان میں کوئی بھی ایسا واقعہ ہوتا جس میں کسی کے ”مراجعت” کا معاملہ ہوتا تو اس پر پشتو زبان میں ”دا ماں جی پیشو” یعنی اماں جی کی بلی والا بیانیہ چسپاں کر دیا جاتا ‘ یعنی بقول احمد مشتاق
مل ہی جائے گا کبھی دل کو یقین رہتا ہے
وہ اسی شہر کی گلیوں میں کہیں رہتا ہے
یہ جن افغان مہاجرین کے ڈی پورٹ کی باتیں کی جارہی ہیں تو معاف کیجئے گا ‘ یہ ہمارے لئے ”اماں جی کی بلی” بن چکے ہیں ‘ جن سے چھٹکارے کی باتیں لاحاصل ہیں’ کیونکہ اب یہ ہمارے لئے اس کمبل کی مانند ہیں جن سے ہم جان چھڑانے میں اس لئے کامیاب نہیں ہو سکتے کہ اب کمبل ہمیں نہیں چھوڑتا ‘ اس کہانی پر بھی مختصراً روشنی ڈال لیتے ہیں کہ جب امریکہ کے ایماء یر افغان ”جہاد” کے نام پر سابق سوویت یونین کے ساتھ جنگ چھیڑ کر ضیاء الحق نے اپنے وطن پر ظلم کرتے ہوئے اس”کمبل” کو مسلط کیا تو ان کے لئے دیدہ ودل فرش راہ کرتے ہوئے انہیں ہر قسم کی نہ صرف آزادی دی ‘ ملک بھر میں ان کے نقل و حمل پر کوئی قدغن نہیں لگائی بلکہ لاکھوں افغان باشندوں کے اندر جو سماج دشمن افراد بھی نقل مکانی کرکے یہاں آئے اور انہوں نے اپنی عادت سے مجبور ہو کر ”بچھو” کے ڈنگ مارتے ہوئے سماج دشمن کارروائیاں آغاز کیں ‘ چوری چکاری ‘ ڈاکہ زنی یہاں تک کہ (بعض اوقات) قتل و غارت جیسے اقدامات سے بھی گریز نہیں کیا اور عوام ان کی حرکتوں سے نالاں ہونا شروع ہوئے ‘ جبکہ اس وقت ضیاء الحق کے زبانی احکاامات کے تحت ان سے کوئی تعرض نہیں کیا بلکہ ان کے خلاف کسی بھی تھانے میں کوئی شکایت تک درج نہ ہونے دی جاتی تھی ‘ جس کی وجہ سے ان کی چیرہ دستیاں بڑھتے بڑھتے اپنی انتہائیں چھونے لگیں تو ہمیں یاد ہے کہ ارباب جہانگیر مرحوم کے دور حکمرانی میں پشاور کے عوام سخت احتجاج پر مجبور ہوئے اور ان کی واپسی کے مطالبات میں شدت آنے لگی تو صورتحال کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے صوبائی حکومت نے افغان مہاجرین کو شہر سے نکال کر کیمپوں تک محدود کر دیا مگر یہ اقدامات بھی وقتی طور پر ہی اختیار کئے گئے تھے کیونکہ جب پشاور کے عوام کا چڑھا ہوا پارہ وقت کے ساتھ نیچے آگیا تو پھر وہی افغان مہاجرین تھے اور وہی شہر کے شب و روز گویا وہی ہے چال بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے والی صورتحال دوبارہ عود کر آئی حالانکہ دنیا بھر کا اصول ہے کہ اس قسم کے تارکین وطن جب بھی کسی دوسرے ملک میں پناہ لیتے ہیں تو انہیں کیمپوں تک محدود رکھا جاتا ہے اور اگر کسی وجہ سے وہ کیمپوں سے باہر آنا چاہتے ہوں تو انہیں پرمٹ جاری کرکے مقررہ وقت پرواپس کیمپوں میں رپورٹ کرنے کو کہا جاتا ہے ہمارے ہمسائے اور دوست ملک ایران میں بھی انہیں آج تک کیمپوں تک ہی محدود رکھا گیا ہے ‘جبکہ پاکستان میں ان کی نقل و حرکت تو ایک طرف ان کوکاروبار کرنے (ہمارے اداروں میں موجود بدعنوانوں کی ملی بھگت سے) پاکستانی شناختی کارڈز اور پاسپورٹ تک رسائی کو آسان بنا کردنیا بھر میں پاکستان کی بدنامی کا باعث بننے کی اجازت دی گئی۔ یعنی بقول ایک فارسی مقولے
خشت اول چوں نہد معمار کج
تاثر یامی رود دیوار کج
خیر جب پلوں کے نیچے سے بہت سا(گدلا) پانی گزر گیا اور ان لوگوں نے پاکستان کے معاشرتی نظام کو ہر طرح سے برباد کرنے اور پاکستانی معیشت میں نقب زنی کرتے ہوئے مسائل کے انبار لگا دیئے یہاں غیر قانونی دستاویزات پر زمینیں جائیدادیں خرید کر معاشرے کو پوری طرح یرغمال بنا دیا تو عوام کو ہوش آیا ‘ اس دوران میں افغانستان میں جنگ بندی بھی شروع ہوگئی تو افغان مہاجرین کو اپنے وطن واپس بھیجنے کے مطالبات میں ایک بار پھر زور آگیا ‘ اقوام متحدہ سے مطالبات میں شدت آگئی تو یو ا ین ایچ سی آر کی وساطت سے بہ امرمجبوری مہاجرین کی واپسی کا عمل شروع کر دیا گیا’ مگر یہ لوگ ایک جانب اپنا مختصر سامان ٹرکوں پر لاد کر اور واپسی کے پروانے کے عوض ڈالروں سے جیبیں بھرتے ہوئے طورخم اورچمن بارڈر کراس کرکے جاتے تو چند روز بعد دوبارہ متبادل راستوں سے واپس آکر ”اماں جی کی بلی” کی طرح میائوں میائوں کرتے ہوئے ایک بار پھر ہمارے دلوں پر مونگ دلنے میں مصروف ہوجاتے ۔ اب جو کچھ بھی ہمارے ساتھ ہو رہا ہے اس کے ذمہ دار” ہم خود” ہیں ‘ اور یہ جو ہم خود کو واوین میں لکھ کر واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے تو اس کا مفہوم بھی آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔یعنی آپ لاکھ انہیں واپس بھیجیں یہ کمبل بن کر ہم سے ایسے چمٹ گئے ہیں جس سے جان چھڑانا اب خواب ہی ہے ۔
کچھ تو خزاں ہے باعث بربادی چمن
کچھ باغباں کا ہاتھ بھی اس میں ضرور ہے ۔
