سیاست میں سرکاری ملازمین کے ملوث ہونے اور سرکاری ملازمین کے احتجاج اور توڑ پھوڑ کے واقعات میں حصہ لینے کا عمل نیک شگون نہیں سرکاری ملازمین کا سیاسی معاملات میں اس حدتک ملوث ہوں کہ ان کے فرائض منصبی پر سیاست غالب آجائے اور وہ بجائے اس کے کہ سرکاری امور پر توجہ دیں سیاسی تنازعات میں الجھ جائیں تو اس سے پیدا ہونے والی خرابی کے منفی اثرات سے سرکاری امور کا متاثرہ ہونا فطری امر ہو گا سرکاری ملازمین کی سوچ او ر نظریات دونوں محترم ہیں لیکن اس کے اثرات سے ان کو اپنی سرکاری کاموں اور فرائض سے الگ تھلگ رکھنا چاہئے ۔ پولیس جیسے منظم فورس میں اگر اس درجے کے سیاسی حامی موجود ہوں تو اس سے قانون اور نافذ قانون کا عمل رکاوٹیں پیدا ہوں گی جس کی ایک حالیہ مثال یہ سامنے آئی ہے کہ تھانہ گلبرگ کے ایس ایچ او کو مطلوب سابق ایم پی اے کوگرفتاری سے بچانے اور انکے ساتھ رابطے رکھنے کے الزام میں گرفتار کرکے ان کیخلاف مقدمہ درج کرلیا گیا جبکہ مزید پولیس افسران اور اہلکاروں کی بھی سرکاری ونجی املاک کو نقصان پہنچانے اورتوڑپھوڑ کے مقدمات میں نامزد سیاسی رہنمائوں کو گرفتار نہ کرنے اوران سے تعاون کا خدشہ ظاہر کیاگیا ہے جس کے بعد ان کی بھی چھان بین شروع کردی گئی ہے ۔پشاورپولیس نے عمران خان کی گرفتاری کے بعد توڑ پھوڑاورسرکاری ونجی املاک کو نقصان پہنچانے پر تحریک انصاف کے کارکنوں کیساتھ ساتھ پارٹی کے رہنمائوں کو ایف آئی آرز میں نامزدکیا جس میں پی ٹی آئی کے سا بق ایم پی اے بھی شامل ہیں تاہم گلبرگ پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او پر الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے سابق ایم پی اے کو گرفتاری سے بچانے کی کوشش کی اور ان کے سا تھ رابطے میں رہتے ہوئے معلومات فراہم کی جس پر سب انسپکٹرپولیس ایکٹ 2017اور212پی پی سی کے تحت مقدمہ درج کرکے ان کو گرفتار کیا گیا ۔ پولیس ترجمان کے مطابق ایس ایس پی آپریشنز نے ان کو معطل کردیاہے ۔ خدشہ ظاہر کیاجاسکتا ہے کہ ایسے مزید افسران واہلکاربھی ہوسکتے ہیں جنہوں نے پی ٹی آئی کے مطلوب رہنمائوں کی گرفتاری کیلئے اقدامات نہیں کئے اوران کی چھان بین بھی شروع کردی گئی ہے ۔ یہ ایک سنگین صورتحال ہے کہ سرکاری ملازمین قانون پرعملدرآمد کا فرض نبھانے کی بجائے ملزموں کی سہولت کاری کریں اس طرح کے واقعات پر متعلقہ حکام کو تحمل کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے بلکہ جس جس محکمے اور ادارے میں اس طرح کی صورتحال ہو اس کا بروقت نوٹس لیا جانا چاہئے ۔
