مشکل صورتحال

وطن عزیز 9 مئی سے قبل بالعموم اور نو مئی کے بعد بالخصوص جس قسم کے حالات کا شکار ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں مشکل امر یہ ہے کہ ملکی اداروں میں بھی سیاست کے باعث تقسیم کے تاثرات میں بعض غلط فہمیوں کی وجہ سے اضافہ ہو رہا ہے یہاں تک کہ عدالت عظمیٰ کے حوالے سے بھی کھلے عام ایسے تاثرات دیئے جارہے ہیں جن کی تصدیق و تردید دونوں مشکل ہیں حکمران جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے جس طرح عدالت کے دروازے پر دربار لگایا اور سٹیج سے جن خیالات کا اظہار کیاگیا وہ کوئی اچھی صورت نہیں تاہم اس امر پر بھی غور کی ضرورت ہے کہ یہ نوبت کیوں آئی اور اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے اور یہ نوبت کیوں آئی۔ عدالت میں محتاط گفتگو اور انصاف کی فراہمی پر بلا امتیاز توجہ کی روایت خطرے میں ہے تو دوسری جا نب تو پوں کے دہانے بھی کھل چکے ہیں اور اس کی سمت عدالت عظمیٰ کی عمارت ہے عدالتی فیصلوں پر تحفظات اور فیصلوں پر قانونی تنقید سے اب بات آگے بڑھ چکی ہے جو انصاف دینے کے اس بڑے ادارے کے وقار کے لئے کوئی نیک شگون نہیں اب تو معاملات بڑھتے بڑھتے اس نہج پر آگئے ہیں کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمرعطاء بندیال اوران کے بعض ساتھی ججز کیخلاف پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اوران کی ہمنوا جماعتوں نے سپریم کورٹ کے باہر دھرناتک دے دیا جس میں چیف جسٹس کوموجودہ سیاسی بحران کاذمہ دارقراردے کراستعفے کامطالبہ کیا گیا جبکہ دوسری طرف قومی اسمبلی نے موجودہ چیف جسٹس عمرعطاء بندیال کوعہدے سے ہٹانے کیلئے ریفرنس لانے کی منظوری دے دی ہے۔ سپریم کورٹ کے گیٹ پر دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ نے کہا کہ عدالتی وقار کے لیے چند ججز کو قربان کردیا جائے تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ملک کا کوئی بھی فیصلہ اب سامنے والی عمارت میں نہیں ہوگا،اب فیصلہ عوام کریں گے، جانبدار جج اپنی حیثیت کو مجروح کرچکاہے۔ معزز کرسیوں پر بیٹھنے والوں کو پارلیمنٹ اور عوام کی تذلیل کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ سیاست دان کی تذلیل ہوگی تو پھر تمھارے ہتھوڑے سے ہمارا ہتھوڑا بھاری ہے، ہمیں یہ ہتھوڑا گردی منظور نہیں،پاکستان کی انتظامیہ پارلیمنٹ اور وزیراعظم کے ہاتھ میں ہے، آپ نے اگر سیاست کرنی ہے تو اس بلڈنگ سے باہر آئواور میدان میں کھڑے ہوجائو۔اگر کسی جج نے ادارے کے تقدس کو پامال کیا تو اس کو برداشت نہیں کیا جاسکتا۔قبل ازیں مسلم لیگ( ن) کی سینئر نائب صدر نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان کی تباہی بھی ججوں کے فیصلوں سے ہوئی ہے ۔ 60ارب روپے کی کرپشن کاملزم جب عدالت میں پیش ہوا کہا گیا ویلکم آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی۔انہوں نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال سے استعفیٰ کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں پانچواں مارشل لا نافذ کیا گیا ہے۔دھرنے کے دوران سپریم کورٹ کے سامنے مظاہرین نے نعرے بازی بھی کی اورچیف جسٹس کے استعفے کامطالبہ کیا۔جب ملک میں سیاست اور عدل کا نظام مدمقابل آجائے حکومت اور پارلیمان مسائل کا حل نکالنے میں کامیاب نہ ہوسکیں سیاستدان آپس مل بیٹھنے کو تیار نہ ہوں تو پھرحالات کا اس نہج پر آنا فطری امر ہوگا ملک ان دنوں جس قسم کے حالات سے گزر رہا ہے وہ نہایت مشکل اور تشویشناک حالت ہے ۔ ایک عام پاکستانی کا ان حالات سے مشوش اور مایوسی کا شکار ہونا فطری امر ہے ۔ جب ہرطرف اندھیرا ہی نظر آتا ہو اور روشنی کی کوئی کرن دکھائی نہ دے تو پھر ایسی ہی کیفیت جنم لیتی ہے ۔اس طرح کے حالات میں سیاسی قوتیں قوم کو ایک راہ دیتی ہیں اور مایوسی سے نکالنے میں ان کاکردار اہم ہوتا ہے مگر پاکستان میں سیاسی جماعتوں نے جس طرح قوم کو مایوس کیا ہے اس کی مثال شاید ہی ملے ۔ حکومت اور حزب اختلاف بلکہ خاص طور پر پارلیمان سے باہر کی ایک بڑی سیاسی جماعت سمیت ہر کوئی لچک دکھانے کو تیار نہیں حکومت پارلیمانی اور سیاسی جماعتوں کی اس رویے کی وجہ سے حالات روز بروز بگڑتے جارہے ہیں سیاسی جماعتوں میں جھگڑا ہی ا لیکشن کی تاریخ کا ہے حکومت اور تحریک انصاف کے قائد ہر کوئی اپنی ضد میں ڈٹا ہوا ہے اضطراب و کشیدگی کے اثرات سے ملک بری طرح متاثر ہو رہا ہے ان حالات کے اثرات سے فوج اور عدلیہ جیسے ادارے بھی متاثر ہوئے اور آج ہر دو ادارے بھی اس کیفیت اور حالات کا شکار ہیں جو پہلے کبھی بھی نہیں تھے ۔ تحریک انصاف الیکشن کی تاریخ کو تمام مسائل کا حل گردان رہی ہے جبکہ حکومت اور اتحادی سیاسی جماعتیں عدلیہ کے فیصلوں اور ایک سیاسی جماعت کے قائد کو بطور خاص میدان سیاست سے دوسری جانب دھکیلنے کی سعی میں ہیں اس لڑائی کی لپیٹ میں عدلیہ اور الیکشن کمیشن بھی آگئی ہے اس طرح کے حالات میں عام انتخابات کی طرف جانا بھی تضادات سے خالی نہ ہوگا بہتر ہوگا کہ محولہ معاملات طے ہوں اور ملک میں اطمینان اور اعتماد کی فضا پہلے قائم ہو اس کے بعد ہی انتخابات کا ماحول پیدا ہو گا جس کے لئے راہ ہموار کرنے کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں:  بے بس حکومتیں بیچارے عوام