پاکستان، عوام اور پاک فوج

قیام پاکستان کے وقت پاکستان کے حصے میں جو فوج آئی اس کے بارے میں کوئی بھی یہ بات ماننے کے لئے تیار نہیں ہو سکتا تھا کہ یہ افواج ایک دن دنیا کی پانچ چھ ٹاپ کی افواج میں شمار ہوگی ۔ کانگریس تو اس امید پر جی رہا تھا کہ پاکستان کی افواج میں ایک بہترین فوج بننے کی صلاحیت اور وسائل موجود ہی نہیںکیونکہ تقسیم کے بعد پاکستان کو جو علاقے ملے ان میں موجود مسلمان افواج پر مشتمل ایک مکمل بریگیڈکہیں بھی موجود نہ تھا ۔ مختلف عمدتوں میں چند بکھرے ہوئے بٹالین ضرور موجود تھے جن کے پاس ایک بندوق اور وردی کے سوا کوئی قابل ذکر ہتھیار نہیں تھا ۔ ان حالات کے پیش نظر بھارتی سورمائوں کا خیال تھا کہ پاکستان میں اول تو ایک مضبوط فوج کھڑی کرنا ہی مشکل کام ہے ، بالفرض وجود میں آئی بھی تو ان کے کاندھوں پر مہاجرین کی حفاظت، سرحدوں کی حفاظت اور ملک کے اندر امن کے قیام اور لاء اینڈ آرڈر کے قیام میں مدد و تعاون کی اتنی بھاری ذمہ داریاں آن پڑی تھیں کہ ان کا شیرازہ بکھرجانے کا خوف لاحق تھا ۔ اسی کے پیش نظر جواہر لال نہرو نے کہا تھا کہ ” پاکستان جیسی چھوٹی چھوٹی نیشنل حکومتیں آج کل دنیا میں اپنی قوم و ملک کی حفاظت کے قابل نہیں ہوتیں اور نہ ہی وہ اپنی خود مختار زندگی گزار کر سکتی ہیں”۔
لیکن بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی دور رس نگاہوں سے یہ باتیں پوشیدہ نہ تھیں کہ پاکستان کی حفاظت و سلامتی کے لئے ایک مضبوط قومی فوج کی شدید ضرورت ہے ، اس لئے انہوں نے اس اہم کام کے لئے جو جدو جہد کی وہ تاریخ میں امر ہے ۔
جواہر لعل نہرو کی خواہش تھی کہ تقسیم ہند کے بعد فوج بھی تقسیم ہو’ وہ بر صغیرپاک وہند کا مشترک دفاع کا منصوبہ بنائے ہوئے تھے لیکن قائداعظم نے سختی کے ساتھ مطالبہ کیا کہ ہر چیز کی تقسیم بقدر جثہ ہونی چاہئے ۔ قائد اعظم کے نزدیک فوج کی اہمیت کیا تھی ، اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ نے کہا کہ ”فوج کے بغیر ملنے والی آزادی ادھوری ہوتی ہے”۔
برطانیہ نے برصغیر میں جو فوج کھڑی کی تھی اس میں ہندو، سکھ،گورکھے اورمسلمان شامل ہوتے تھے۔اس رائل انڈین فوج کے قیام میں بہت بڑی کاوشوں کے علاوہ ایک طویل مدت لگی تھی ۔انگریزنے پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں اسی انڈین فوج کے بل بوتے پر کئی معر کے سر کئے تھے لیکن اس فوج کے سامنے کوئی خاص قومی یا مذہبی ماٹو نہیں تھا ۔ اور نہ سپاہیوں کے سامنے کوئی مشن تھا سوائے ایسا کہ معاشی بد حالی کے سبب مالی فوائد کے حصول اور مارشل ریس میں شامل ہونے ایک روایت سمجھ کر سات سمندر پار فرائض بھی ادا کرنے پر مجبورتھے مگر قائد اعظم کی بصیرت افروز اور دور اندیش قیادت برطانوی سرکارکو صاف الفاظ میں یہ بات گوش گزار کی کہ ہم اپنی افواج کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہر چند پیسوں کے عوض مرنے کے لئے سمندر پار اس وقت تک نہیں بھیج سکتے جب تک مسلمانوں کو بھی کنگ کمیشن نہ دیا جائے ۔ قائد اعظم کے اس مطالبے سے قبل فوج میں شامل مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ صوبیدار اور صوبیدار میجر کے عہدے ملا کرتے تھے جو وائسرائے کمیشن کہلاتا تھا لیفٹیننٹ کا عہدہ کنگ کمیشن کہلاتا تھا۔
پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں جب برطانیہ کو ہندوستانی افراد کی فوج میں شمولیت کی شدید ضرورت پڑی تب قائد اعظم کی تگ و دو و مطالبے کے تحت انگریزوں کو بہت مشکلوں سے اس بات پر قائل کر دیا کہ کالے رنگ کے فوجیوں کو بھی قابلیت کی بنیاد پر کنگکمیشن کا حق دیا گیاکیونکہ برطانوی سینڈھرسٹ اکیڈمی کا یہ کہنا تھا کہ گورے فوجی کالے افسروں کے ماتحت کام نہیںکر سکتے ۔” تب عظیم قائد نے جواباً نے کہا تھا، جب کالا فوجی گورے کی قیادت میں مرنے کو تیار ہے تو گورے کو بھی کالے کی قیادت قبول کرنا ہوگی اس نسلی تفاخر کی مذمت میں با قاعدہ جب ایک قرار داد منظور کرائی گئی تو تب جاکر انگریز سرکار نے ہندوستان میں کالے فوجیوں کو کنگ کمیشن کے حصول کے لئے ڈیرہ دون اکیڈمی قائم کرنے کی منظوری دے دی تھی ۔ اس عمل سے قائد اعظم کی فوج کی اہمیت کے ساتھ والہانہ محبت کا بھی اندازہ ہو جاتا ہے یہاں اس بات کا ذکر بھی شاید دلچسپی سے خالی نہ ہو کہ ایسی ڈیرہ دون کا پہلا بیچ1934 میںپاس آئوٹ ہوا تھا جس میں پاکستان کے بعد میں بننے والے پہلے کمانڈر ان چیف محمد موسیٰ خان بھی شامل تھے ۔
قا ئد اعظم کی دوراندیشی ملاحظہ فرمائیں کہ پاک افواج کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کے لئے ملک میں اسلحہ فیکٹریوں کے قیام پر فوراً غور کیا گیا اور راولپنڈی میں پہلی چھوٹی سی فیکٹری کا قیام عمل میں آیا اس کا تسلسل آج واہ آرڈی ننس فیکٹری ہے ۔ جس نے پاکستان کوٹینک ‘ توپ اور گولہ بارود وغیرہ کی پیداوار میں تقریباً خود کفیل کیا ہے۔
قائد اعظم فوج کی اہمیت سے بخوبی آگاہ تھے اس لئے وطن عزیز میں بہت جلد کاکول اکیڈمی قائم کرائی جن میں26جنوری 1948ء کو پہلے کورس کا آغاز ہوا ۔ جنرل فضل حق ‘ جو جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء میں موجودہ پختونخوا کے گورنر رہے’ نے اپنا آدھا کورس ڈیرہ دون اورباقی آدھا کاکول سے مکمل کروا کر پاس آئوٹ ہوئے تھے ۔
اسی طرح قائد اعظم نے پاکستان ایئر فورس اور پاکستان نیوی کی بنیادیں بھی رکھیں کیونکہ کسی بھی ملک کی حفاظت و سلامتی میں تینوں افواج کا بہت اہم کردار ہوتا ہے ۔ قائد اعظم کی فوج کے ساتھ اس والہانہ محبت کے ساتھ ہی یہاں اس بات کا ذکر آج کے تناظرمیں بہت ضروری ہے کہ آپ افواج پاکستان کی اپنی پیشہ ورانہ سرگرمیوں کے علاوہ مملکت کے دیگر امور ہاتھ مارنے اور اپنے بنیادی فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی کے حوالے سے بہت سخت گیر واقع ہوئے تھے ۔ کیونکہ بانی پاکستان ایک آئین پسند اور جمہوری فکر کے حامل رہنما تھے اور انہوں نے جمہوری جدوجہد ‘ آئینی س یاست اور عوامی حمایت سے پاکستان حاصل کیا تھا۔ اس لئے آزادی کے فیصلہ کن ایام میں جون 1947ء میں دہلی میں آل انڈیا مسلم لیگ کی کونسل اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ”میں نے اپنا کام مکمل کرلیا ہے ‘ جب فیلڈ مارشل آرمی کو فتح سے ہمکنار کرتا ہے تو اس کے بعد سول اتھارٹی کنٹرول سنبھال لیتی ہے ‘ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قائداعظم پاکستان میں سویلین کنٹرول کے کتنے حامی اور خواہش مند تھے۔
ایک دفعہ ایک تقریب میں جب ایک فوجی افسر نے سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ ”پاکستان کی منتخب حکومت سول افراد پرمشتمل ہوگی جو بھی جمہوری اصولوں کے برعکس سوچتا ہے اسے پاکستان کا انتخاب نہیں کرنا چاہئے”۔
قیام پاکستان کے بعد 14اگست کو پہلی عید کے موقع پر ایک استقبالیہ میں چند فوجی افسر بھی شامل تھے قائد اعظم جب ان کا حال احوال پوچھنے کے لئے قریب آئے تو کرنل اکبر خان رنگروٹ(جو راولپنڈی سازش کیس میں اہم کردار رہے) نے دفاعی پالیسیوں اور حکمت عملی پر اپنے خیالات کا اظہار شروع کر دیا ۔ ابھی کرنل اکبر نے بات پوری نہیں کی تھی کہ قائد اعظم نے اپنے مخصوص انداز میں انگلی اٹھا کر اکبر خان پر کڑی نظر ڈالی اور کڑک دار لہجے میں ایک ایک لفظ پر زور دے کر کہا کہ یہ نہ بھولیئے کہ آپ لوگ مسلح افواج میں ہیں۔ عوام کے خادم ہیں ۔ قومی پالیسیاں بنانا آپ لوگوں کا کام نہیں”۔
قائد اعظم فوجی افسران بالخصوص ایوب خان ‘ اکبر خان جیسے لوگوں کے رویے کا مسلسل مشاہدہ کر رہے تھے اور بھانپ گئے تھے چنانچہ انہوں نے ہر موقع پر سول اداروں اور سول قیادت کی بالادستی کی پرزور تلقین کی۔ آپ سول وملٹری ملازمین کو پیشہ ورانہ سرگرمیوں تک محدود رکھنے کے سخت حامی تھے ۔ مگر افسوس کہ ابتدائی دنوں ہی میں بعض فوجی افسران کی من مانی و بدمستی کی شکایات موصول ہونے لگیں اور قائد اعظم کے خدشات کو توقیت اس وقت ملی جب ایوب خان کو مہاجرین کی آباد کاری کے سلسلے میں سردار عبد الرب نشتر کی معاونت کی ذمہ داری تفویض کی گئی تو سردار عبد الرب نشتر نے قائد اعظم کو رپورٹ پیش کی کہ ”ایوب خان نے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں اور اس کا رویہ پیشہ ورانہ نہیں ہے۔
(جاری ہے)

مزید پڑھیں:  وصال یار فقط آرزو کی بات نہیں