میں ڈوبنے کا گلہ ناخدا سے کیا کرتا

حکمت اور دانائی کے بھی تقاضے ہوتے ہیں’ ان تقاضوں میں سب سے اہم صبر و برداشت اور افہام و تفہیم ہیں’ مسئلے باہم گفت و شنید سے حل کئے جائیں تو ہینگ لگتی ہے نہ پھٹکڑی اوررنگ بھی چوکھا آتا ہے’ اس وقت جو سب سے زیادہ قابل توجہ مسئلہ ہے وہ 9 مئی کے سانحے کے بعد صورتحال میں ڈرامائی تبدیلی کی وجہ سے خیبر روڈ کی بندش کی صورت سامنے آیا ہے’ جسے وقتی طور پرتو برداشت کر لیا گیا تاہم اب اسے ممکنہ طور پر طول دیئے جانے کے خدشات کی وجہ سے عام عوام تو بالعموم مگر وکلاء و برادری بالخصوص مزید برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے کیونکہ اس روڈ کی بندش سے پشاورہائی کورٹ اور دیگر عدالتوں کے علاوہ اسی روڈ پر موجود لاتعداد سرکاری دفاتر سول سیکرٹریٹ تک رسائی دینے کی وجہ سے سرکاری ملازمین کی اپنی ڈیوٹیوں پر جانے’سائلین کی عدالتوں سے رجوع کرنے اور ٹریفک کے اس راہ سے گزرنے کے جیسے معاملات (وقتی بندش کی وجہ سے) گھمبیر صورت اختیار کر چکے ہیں ۔ جبکہ اس بندش کی وجہ اسی سڑک پر ایک پنج ستاری ہوٹل کے قریب ہی ایک اہم عمارت پر بھی9 مئی کے سانحے کے دوران ملک کے دوسرے بڑے شہروں میں حساس عمارتوں اور تنصیبات پر دہشت گردانہ حملہ تھا، جبکہ بلوائیوں نے ریڈیو پاکستان کے احاطے کے سنگ چاغی ماڈل کو آگ لگا کر بھسم کرنے کے اگلے ہی روز ریڈیو کی عمارت کو بھی لوٹ کر آگ لگادی گئی، ان واقعات کی وجہ سے احتیاطی تدابیر کے طور پر خیبر روڈ کی بندش اسی نوع کے مزید واقعات کا راستہ روکنا تھا جسے عوام نے خوش دلی کے ساتھ قبولیت بخشی تاہم اب جبکہ صورتحال مکمل طور پر نہ صرف کنٹرول میں آچکی ہے’ سیکورٹی اداروں نے قومی ا ملاک کو نقصان پہنچانے والے وطن دشمنوں کی سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج کی مدد سے نادرا کے تعاون سے بلوائیوں کی شناخت یقینی بنا کر انہیں قانون کے دائرے میں لاکر ان کے گرد گھیرا تنگ کرنا شروع کر دیا ہے اور گزشتہ روز قومی سلامتی کونسل کے فیصلوں کے نتیجے میں ان ہنگاموں ، توڑ پھوڑ اور دہشت گردانہ کارروائیوں کے ذمہ داروں کے خلاف سخت ایکشن لینے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اور صورتحال معمول پر آنی شروع ہو گئی ہے، جس کے بعد اصولی طور پر ہائی کورٹ بار اور اب اس کے بعد ڈسٹرکٹ بار کا یہ مطا لبہ بالکل درست ہے کہ خیبر روڈ کو مزید بند کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے کیونکہ وکلاء نے سائلین کو عدالتوں میں پہنچنے ، سرکاری ملا زمین کو دفاتر اور سول سیکر ٹریٹ جبکہ عام لوگوں کو اس سڑک سے عمومی استفادہ کرنے میں شدید دشواری کا سامنا ہے۔ ناز مظفر آبادی نے کہا تھا
میں ڈوبنے کا گلہ ناخدا سے کیا کرتا
کہ چھید میں نے کیا تھا خود اپنی نائو میں
سڑکوں کی ناکہ بندی اور بعض شاہراہوں اور سڑکوں کی مکمل بندش کا یہ سلسلہ بلکہ یہ عذاب ضیاء الحق نے اس شہر پر مسلط کیا تھا ‘جبکہ اس سے پہلے ہم اپنی جوانی کے دور میں جب ہم ریڈیو پاکستان کی ملازمت میں تھے ‘ شام کے وقت اپنی موٹر سائیکل پرشہر سے صدر جاتے ‘ گپ شپ کرتے ‘ ادبی ہنگاموں کا حصہ بنتے ‘ صدر کے دو مشہور (مگر اب مرحوم) کیفوں سلور سٹار اور گارڈینیا میں دوستوں کے ساتھ چائے سے لطف اندوز ہوتے اور رات بھیگنے سے پہلے واپسی کی راہ لیتے ‘ ہم گورنر ہائوس کے سامنے سے گزرنے والی سڑک کے علاوہ بابر روڈ ‘ اور دیگر ملحقہ سڑکوں پر موٹر سائیکل اوربعد میں سکوٹر پر(جو اب بھی گھر میں کھڑا ہے) فراٹے بھرتے ہوئے آتے جاتے ‘ جہاں سکون ہوتا ‘ اردگرد کے سبزہ زاروں اور پھولوں کے قطعات سے بھینی بھینی خوشبو شام مشام جاں کو معطر کر دیتی ‘ مگر جب ضیاء الحق نے (نام نہاد جہاد) میں اترنے کا فیصلہ کیا اور بن بلائے مہمانوں کو ہمارے سروں پرمسلط کیا تو حالات نے پلٹا کھا کر آہستہ آہستہ ایک ایسا رخ ا ختیار کیا جس کا ہم نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا ‘ اور پھر وہ دن بھی آگئے جب”جنگ بندی اور سوویت افواج کی مراجعت کا فیصلہ ضیاء الحق کی مرضی کے خلاف جونیجو مرحوم کی حکومت میں سامنے آیا ‘ تو سوویت افواج کے واپس جانے کے بعد ان طاقتوں نے بھی جن کی ایماء اور امداد پر یہ جنگ برپا کی گئی تھی ‘ اچانک آنکھیں پھیر لیں ‘ مزید امداد بند کر دی ‘ جس کی وجہ سے افغان دھڑوں میں خانہ جنگی شروع ہوئی ‘ اس کے نتائج ہم پر بھی پڑنا شروع ہوئے کہ اب وہ جنگ ہمارے شہروں میں یوں لڑی جانے لگی کہ اس کی ساری ذمہ داری ہم پرعاید کرتے ہوئے دہشت گردی کا بازار یہاں گرم کیاگیا’ اس کے نتیجے میں پہلے تو گورنر ہائوس کے سامنے کی سڑک اور ملحقہ ایریا میں دیگر حساس اداروں اور ان کی کالونیوں تک رسائی والی سڑکیں عوام کے لئے شجر ممنوعہ بنا دی گئیں ‘ ہمیں یاد ہے کہ گورنر ہائوس اور وزیر اعلیٰ ہائوس کے سامنے سے گزرنے والی سڑک ”ہر ایک کے لئے” شجر ممنوعہ قراردی گئی تو وہاں سے گزرنے والے پشاور ہائی کورٹ کے جج صاحبان کو بھی اس سڑک سے گزرنے پر پابندی لگائی گئی جس پر عدلیہ نے سخت ایکشن لیتے ہوئے برا منایا اور ”۔۔۔۔۔ نتائج کی دھمکی دی” تو ان کے آنے جانے پر پابندی ختم کر دی گئی’ تب سے یہ تمام سڑکیں صرف ان کے لئے دیدہ دل فرش راہ کئے ہوئے ہیں جن کے پاس وہاں سے گزرنے کا پروانہ ہو ‘ یا پھرمتعلقہ عمارتوں اور دفاتر سے ان سڑکوں پر ناکے لگانے والوں کے پاس ان کے ناموں کی لسٹ موجود ہو۔ دوسری جانب پورے شہر میں ناکہ بندیوں اور ان کے قریب سڑک پر سپیڈ بریکر لگا کرٹریفک کی روانی کومتاثر کرنے کا سلسلہ طویل عرصے تک چلتا رہا ہے ‘ یعنی شہریوں کی آمدورفت کواپنے ہی شہر میں محدود کرکے انہیں اذیت سے دوچار کیا جاتا رہا اور کئی سال اس عذاب سے گزرنے کے بعد بلکہ عدالتوں سے رجوع کرنے کے نتیجے میں یہ ناکہ بندیاں ختم کر دی گئی تھیں ‘ تاہم بعض مقامات پراب بھی یہ سلسلہ جاری ہے ‘اب 9 مئی کے سانحے کے بعد اگرچہ وقتی طور پر یہ سلسلہ دوبارہ شروع کر دیاگیا ہے جس کو عوام نے بہ امر مجبوری برداشت کر لیا ہے مگر اس کو طول دینے کا اب نہ کوئی جواز ہے نہ ضرورت ‘ کیونکہ خیبر روڈ کی بندش سے پشاور ہائی کورٹ بار اور اب ڈسٹرکٹ بار کے احتجاج سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عوام کتنی مشکل میں ہیں ‘ جبکہ اس اقدام سے پشاور کی ٹریفک کا نظام بری طرح متاثر اور شہر مفلوج ہوچکا ہے ‘ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ حالات کو معمول پرلانے کے لئے یہ عارضی بندش جلد ازجلد ختم کردی جائے ‘ اسے بلاوجہ طول دینے کا کوئی جواز اور عوام کو مشکلات سے دو چار کرنے کی ضرورت نہیں ہے ‘ امید ہے متعلقہ حکام صورتحال پرغور کرکے حالات میں کسی بھی ممکنہ تنائو سے گریز کریں گے ۔ بقول احمد فیض احمد فیض
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جودکھ تھے بہت لادوا نہ تھے

مزید پڑھیں:  ضمنی انتخابات کے نتائج