بلوچستان کی آبادی

بعد از احتجاج

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان ایک سونوے ملین پائونڈ کرپشن کیس میںگرفتاری کے خلاف نو اور دس مئی کو ملک بھر میں پرتشدد احتجاج اور جلائو گھیرائو کے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف قانونی کارروائی تیزی سے آگے بڑھائی جارہی ہے ۔ اس دوران7ہزارسے زائدگرفتاریوں کادعویٰ کیاجارہاہے۔پاکستان تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں ان کے 7ہزار سے زائد حامی اور کارکن قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پولیس کی حراست میں ہیں۔دریں اثناء وزیراعظم شہباز شریف نے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس سے خطاب میں کہا ہے کہ نو مئی کے واقعات سے ہمارے سر جھک گئے ہیں ان واقعات نے کروڑوں پاکستانیوں کو افسردہ کیا ہے، کسی مجرم کے بچ نکلنے کاسوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔شہباز شریف نے کہا قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس افواج پاکستان کے ساتھ بھرپور وابستگی کا اظہارکرتا اور تمام واقعات کی شدید مذمت کرتا ہے ۔انھوں نے کہاہمیں قانونی، آئینی اورانتظامی لحاظ سے ایسے اقدامات کرنے چاہئیں کہ ایسا واقعہ دوبارہ رونما نہ ہو جس نے پوری دنیا میں پاکستان کو شدید نقصان پہنچایا۔اپنے خطاب میں شہباز شریف نے کہا کہ میں نے 72 گھنٹے کی ٹائم لائن دی تھی اور کہا تھا کہ جنھوں نے اس کی منصوبہ بندی کی اور بلوائیوں کو اکسایا ان کو ہر صورت قانون کے کٹہرے میں لانا ہو گا ۔وزیر اعظم نے کہاجن لوگوں نے تباہ کن کارروائیاں کیں وہ دہشت گردی کے زمرے میں آتے ہیں جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔دوسری جانب تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کارکنوں کے لیے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ جب بھی آپ کو اگلی کال آئے تو بغیر توڑ پھوڑ کئے، پر امن طریقے سے اپنے حقوق کی آزادی کیلیے سڑکوں پر نکل آئیںعلاوہ ازیں پاکستان تحریک انصاف نے کور کمانڈرز کانفرنس کے اعلامیے پر ردعمل جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم برملا اعلان کرتے ہیں کہ ہمارے پاس کسی بھی آزادانہ تحقیق/انکوائری میں پیش کرنے کے لیے کافی شواہد موجود ہیں، ان ثبوتوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جلائو گھیرائو اور بعض مقامات پرفائرنگ وغیرہ میں ایجنسیوں کے اہلکار ملوث تھے ۔گزشتہ روز آئی ایس پی آر نے کور کمانڈرز کانفرنس کا اعلامیہ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ 9 مئی کو فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والوں کا آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ٹرائل ہوگا۔تحریک انصاف کے قائد کے اس خیال میں معاملات دو ہفتوں کے اندر حل ہوں گے اور ان کو انتخابات کی تاریخ مل جائے گی یہ کیسے ہوگا اور ایک ایسے وقت جب ایک سونوے ملین پائونڈ کی کرپشن کیس میں ان کی گرفتاری کے موقع پر جوحالات سامنے آئے اس کے باوجود دو ہفتوں میں معاملات کی درستگی کس جادو کی چھڑی کے ذریعے ہوگی بظاہر تو ایسا نظر آناناممکن لگتا ہے البتہ اگر دوران گرفتاری درون خانہ کوئی ڈیل ہوئی ہے تو یہ الگ بات ہو گی جس سے قطع نظر بہرحال آرمی ایکٹ کے تحت جن جن افراد جس میں خود تحریک انصاف کے قائد کا بھی دو مقدمات میں نام لیا جارہا ہے متوقع کارروائی میں دیگر مقدمات کی طرح نرمی نہیں ہوسکتی اگرچہ کئی حلقوں کے مطابق ان مقدمات کو سول عدالتوں ہی میں چلایا جانا چاہئے اور فوجی عدالتوں میں ان مقدمات کو چلانا مناسب نہیں لیکن بہرحال جو واقعات پیش آئے اور فوج کی سول انتظامیہ کی مدد کے لئے باقاعدہ طلبی بھی ہوئی اس صورت میں اور پیش آمدہ حالات و واقعات کے تناظر میں قانونی طور پر اس حوالے سے کوئی سقم موجود نہیں نیز ان مقدمات میں سزا کے خلاف بعد میں ا پیل بھی ہوسکے گی اس طرح کے مقدمات کو فوجی عدالتوں میں لے جانے کی مخالفت کا پھر بھی جواز ہوتا اگر معروضی صورتحال میں اعلیٰ عدلیہ کے بعض فیصلے تنقید کی زد میں نہ آتے اور عدالتی نظام فعالیت کے ساتھ موجود کام کر رہا ہوتا تو اس کی گنجائش تھی دوسری جانب عسکری ادارے اور اس کی تنصیبات کو جس طرح چیلنج کیاگیا اس سے جو ساکھ متاثر ہوئی اس پر سمجھوتہ کی گنجائش نظر نہیں آتی سوائے اس کے کہ اس پرغیر مشروط معافی طلب کی جائے جہاں تک یکسر انکار اور اسے سازش گرداننے کا سوال ہے ایسا ممکن ہونابعید نہیں لیکن باوجود اس کے یہ تحریک انصاف کی قیادت کی ذمہ داری تھی کہ وہ اپنی صفوں میں شرپسند عناصر کی موجودگی کے امکان پر نہ صرف بروقت نظر رکھتی بلکہ عسکری مقامات کی طرف جانے کا فیصلہ ہی نہ کیا جاتا بعد از خرابی بسیار عذر لنگ پیش کرکے اسے مان لینے کی توقع عبث امر ہے ۔ جن کارکنوں کی گرفتاریاں عمل میں لائی گئی ہیں اورمزید گرفتاریوں کا جو سلسلہ جاری ہے جولوگ موقع پرموجود تھے اور خاص طور پر جو کارکن آتشزدگی اور توڑ پھوڑ کی کارروائیوں میں شامل رہے قطع نظر ان کی عمر اور صنف کے ان کے خلاف قانونی کارروائی بہرحال بلاوجہ نہیں بہت سے کارکنوں کی جانب سے اپنی غلطی کا احساس اور ندامت کے اظہار کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے تحریک انصاف کے ترجمان فواد چوہدری نے بڑے واضح ا نداز میں ملوث عناصر کے خلاف کارروائی کی حمایت کی ہے اس وقت درپیش صورتحال میں اب یہی ممکن ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت مزید کسی احتجاج کی کال سے گریز کرتی لیکن عملی طور پر کال دے کر کارکنوں کی قیادت دونوں کو ایک نئے امتحان میں ڈال دیا گیا ہے سیاسی معاملات و اختلافات کا حل مذاکرات سے ممکن ہے لیکن قانون کی عملداری کو پامال کرنے والوں کو ایک خاص عدالتی عمل سے لازماً گزرنا پڑے گا اس وقت بہتر حکمت عملی مزید جذباتیت اور غلطی کے اعادے سے گریز کی صورت ہی ہو گی۔

مزید پڑھیں:  شاہ خرچیوں سے پرہیز ضروری ہے!